عالمی اَخبارات کی فراہم کردہ خبریں دنیا میں خبر کا معیار سمجھی جاتی ہیں۔ خطے میں تربیت یافتہ صحافی اور اَخبارات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ امریکا کی کسی بھی ناکامی کو کامیابی اور بالادستی بنا کر پیش کریں۔ امریکا کی کہی اور کہلوائی گئی ہر بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ معاوضے کی خاطر اسے حقیقت بنا کر پیش کرنا صحافت کی صحت کا معیار بن چکا ہے۔ چوں کہ انھیں اس کام کا بے انتہا معاوضہ ملتا ہے، اس لیے وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں سے اس کام پر مامور صحافت نے خوب مال بنایا۔ بڑی بڑ ی ایمپائر کھڑی کیں۔ صحافیوں کے اس طبقے نے سچائی کے بنیادی تصور کو ہی بدل ڈالا۔ عام مصنوعات کی طرح سچائی بھی ایک کموڈٹی بن چکی ہے۔ جو صحافی جتنے مؤثر انداز سے ان مصنوعا ت کا استعمال کرسکتے ہیں، ویسی ہی قیمت وصول کرتے ہیں۔ رائے عامہ بنانے کے لیے اَخبارات ایسی سوچ کی تشہیرکے لیے منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں۔ ان حالات میں میڈیا بھی غیرپیداواری صنعت کا درجہ حاصل کرچکا ہے ا ور ریاستی بجٹ میں اپنے لیے مخصوص فنڈز مختص کرواتا ہے۔
روس‘ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اپنی کمزوریوں پر غور و فکر کرتا رہا۔ بالآخر اس کے تدارُک کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آج وہ ہاری ہوئی جنگ کو جیتنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف امریکا جنگ جیت کر بھی آج سب کچھ ہارچکا ہے۔ کیوں کہ وہ جنگی ٹیکنالوجی میںمات کھا چکا ہے۔ روس کے تحقیقاتی ادارے(Almaz Central Design Bureau of Russia)(المازمرکزی آفس برائے ڈیزائن) نےS-400دفاعی نظام اپریل 2007ء میںتخلیق کر کے روسی فوج کے حوالے کیا تھا۔ عالمی سطح پر بشا رالاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے 2015ء میں پہلی دفعہ روس نے امریکا کے خلاف شام کے محاذ پر اس سے بھی ابتدائی درجے کی ٹیکنالوجی یعنیS-300کا استعمال کیا تھا، جس نے امریکی نام نہاد سپر پاور کی قلعی کھول کے رکھ دی تھی۔ روس نے محض اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ساتھ ہی دفاعی میزائل کا مزید ترقی یافتہ ورژنS-500کو 2021ء تک متعارف کروانے کا بھی اعلان کردیا۔ دنیا میں جنگ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لڑی اور جیتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس آج میدانِ سیاست کی بازیاں اپنے حق میں بدلتا جارہا ہے۔
امریکا نے اپنی بالادستی کے عہد میں جاپان پر ایٹم بم، فلسطین پر اسرائیل، ویت نام پر دہشت گردی، افغانستان کو تاراج کرنے، عراق کی تباہی، لیبیا کے سماجی ڈھانچے کو مسمارکرنے، شام میں قتل غارت گری اور یمن میں عدمِ استحکام پیدا کرکے جو مقاصد حاصل کیے تھے، آج وہ اس سے کئی گنا زیادہ کھو چکا ہے۔ امریکا اور اس کے تھنک ٹینکس جس طرح ماضی کے مزار بنے ہوئے ہیں، اسی طرح اس کے لکھاری بھی ماضی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ وہ آج بھی دنیا کو یہ تأثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر امریکا افغانستان سے نکل گیا تو علاقہ جنگ و جدل کا شکار ہوجائے گا۔ گویا افغانستان میں امریکی موجودگی امن کی علامت ہے۔ حال آں کہ امریکا کا افغانستان سے بھاگنا ہی اس کی جنگی ٹیکنالوجی کی شکست ہے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا جہاں اپنا تسلط مسلط کرتا ہے، اس کے ارد گرد خوف کی دیواریں کھڑی کرتا ہے۔ خوف پیدا کرنے کے لیے دہشت گردی، قتل و غارت، انتہا پسندی جیسے عفریت میدان میں اتارے جاتے ہیں، جو اس کی حکمتِ عملی کا لازمی تقاضا ہیں۔ تاریخ کا ایک ایسا عہد جس میں درج ذیل اِقدامات اختیارکیے گئے؛ امریکا اور طالبان کے درمیان پہلا ’’معاہدہ برائے امن‘‘ فروری 2020ء، جس کے نکات میں فوج کی واپسی، قیدیوں کا تبادلہ اور علاقے کو تشدد سے پاک بنانا۔ دوسرا معاہدہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان 12؍ ستمبر2020ء کو دوحہـ،قطر،جسے’’انٹرااَفغانڈائیلاگ‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں افغان فریقین کے مابین ملک چلانے کے معا ملات وغیرہ، یہ سب واقعات تاریخ میں گم ہونے جارہے ہیں۔ کیوں کہ ان کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ یہ محض التو اکے ہتھکنڈے تھے، جو آج غیرمؤثر ہوچکے ہیں۔
افغانستان سے باہر چار بڑے پلیئرز ہیں، جو اِنخلا کے عمل پر اثر انداز ہوں گے۔ سارے پلیئرز جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ امریکا انتقالِ اقتدار کی ذمہ داری صرف پاکستان پر ڈال رہا ہے۔ کیوں کہ اس کے مطابق روس، چین اور انڈیا کے مقابلے میں وہی اس کی اتباع اختیار کرسکتا ہے۔ پاکستان گزشتہ پچاس برس سے افغانستان کے علاوہ عالمی معاملات میں اس کا شریکِ سفر رہا ہے: پہلی افغان وار ہویا دوسری جنگ، طالبان کا اقتدار، امریکی قبضہ، القاعدہ، متحارب گروپوں میں مذاکرات وغیرہ۔ اپنے ہی دیے ہوئے اِنخلا کے شیڈول سے روگردانی کرتے ہوئے قبل از وقت واپسی کا اعلان کررہا ہے۔ بگرام ائیر بیس جون کے اختتام تک افغان فورسز کے حوالے کر دی جائے گی۔ جولائی کے وسط تک تما م اڈے خالی کردیے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مسئلے کی نزاکت کے تناظر میںیہ انتہا ئی عجلت اور لاپرواہی کا فیصلہ ہے، جو کہ غیر ذمہ داری کا عملی اظہار ہے۔ دنیا کے معاشروں کو تباہ برباد کرنا، ان کے سماجی ڈھانچوں کو مسل کے رکھ دینا، انھیں بے یارو مدد گار چھوڑ دینا آج امریکی روِش بن چکی ہے، جو اس کے زوال کی طرف پیش خیمہ ثابت ہونے جارہی ہے۔
امریکا کا اچانک انخلا کا فیصلہ کسی نیک مقصد یا جذبۂ خیر سگالی کا عکاس نہیں، بلکہ حملہ آور ہونے کی استعداد سلب ہونے کے سبب ہے۔ کیوں کہ اس کے تمام ہوائی حملےS-400دفاعی نظام کے باعث غیر مؤثر ہوچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس کے حواریوں کے لیے بھی خطر ناک ہے۔ آج وہ سارے حلقے یتیم ہونے جارہے ہیں۔ ایشیائی طاقتوں نے جدید معاشی اقدامات اور سیاسی اتحادوں کے ذریعے دنیا کے رُجحانات کو تبدیل کر دیا ہے۔ چین عالمی سطح پر معاشی غلبے کے لیے ’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشییٹو‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ گویا ان کے پاس مستقبل میں عالمی غلبے کا مربوط پروگرام موجود ہے، جب کہ دوسری طرف ماسوائے قلاشی کے کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ استعمار کے تمام اتحاد بے وقعت ہوچکے ہیں۔ ترکی نیٹو کا اتحادی ہونے کے ناطے افغانستان میں رُکنے کا تقاضا کررہا تھا، جسے طالبان نے رد کردیا (رائٹر 11؍ جون 2021ء)۔ لہٰذا ان حالات میں امریکا کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنی ساری توجہ متحدہ ریاستوں کے مفادات کی طرف مبذول کرے، ورنہ اس کا اپنا وجود بھی سوویت یونین کی طرح تحلیل ہوجائے گا اور دنیا متحدہ امریکا کا ذکر تاریخ میں تلاش کرے گی۔ کیوں کہ قوموں کے اجتماعی اقدامات اور ان کے حاصل نتائج کا اندرا ج ہی تاریخ کہلاتا ہے۔
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
Asian Powers and Afghanistan of Future
Asian Powers and Afghanistan of the Future Mirza Muhammad Ramzan, Islamabad. According to the Prime Minister of Pakistan Imran Khan, "During the Mughal Empire…
اقوامِ عالم کی ترقی کے لیے دو قرآنی اُصول
20؍ اگست 2021ء کو حضرت اقدس مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری مدظلہٗ نے ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’معزز دوس…
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
نیٹو مظالم سے بچانے کی رُوسی حکمت ِعملی (3)
( مسئلہ یو کرین کا پس منظر) ملک میں ایمر جنسی نافذ کردی جاتی ہے۔ فوجیں ماسکو میں پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ وہاں ان فوجوں کا سامنا انسانی ہاتھوں سے بنی ہوئی زنجیر وں سے …