بحیرۂ روم کا وہ علاقہ جو چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین کہلاتا ہے، یعنی وہ ممالک جو بحیرۂ روم کے مشرقی کنارے پر واقع ہیں، لیبیا ان میں سے ایک ہے۔ معمر قذافی نے 1969ء میں یورپین سامراج کے نمائندے ادریس سنوسی کے خلاف فوجی بغاوت کرکے انقلاب قائم کیا تھا۔ فوجیوں کا وہ دستہ، جس نے بغاوت میں حصہ لیا تھا، اس میں سے ایک فوجی آفیسر خلیفہ ابوالقاسم حفتر کو 1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا ٹاسک سونپا گیا۔ 1987ء میں ان کی فوجی خدمات کے اعتراف کے طور پر چاڈ کے خلاف فوجی کارروائی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس کی سربراہی میں لیبیا کی فوج کو چاڈ کی فوج کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسٹر حفتر اور اس کے 300 سپاہیوں کو 1987ء میںچاڈ کی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ جنگی قیدی بنا لیے گے۔ معمر قذافی نے اس کی اس شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اسے فوجی عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ اس پر وہ معمر قذافی کے خلاف ہوگیا۔ حفتر یہاں سے امریکا چلا گیا اور اس نے اگلے 20 سال معمر قذافی کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے وقف کردیے۔ وہ اگلے 20 سال کے لیے امریکی ریاست ورجینیا میں جلا وطنی کی زندگی گزارتا رہا۔ وہاں اس کی سرپرستی سی آئی اے نے کی۔ جہاں سے معمر قذافی پر متعدد قاتلانہ حملے کروائے گئے۔ (بی بی سی 8؍ اپریل 2019ئ) معمر قذافی کو اس کے بیالیس سالہ اقتدار کے خونی اختتام پر بروز جمعرات کو ان کے آبائی گاؤں سرت کے قریب گرفتار کرکے 20؍ اکتوبر 2011ء کو شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد حفتر لیبیا واپس آگیا۔
معمر قذافی کی شہادت کے بعد لیبیا کی وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا۔ بن غازی شہر کے آزادی چوک میں اتوار کو عبوری حکومت کے رہنما مصطفی عبدالجلیل کی تقریر سننے کے لیے بہت بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ عالمی غنڈوں کی پشت پناہی سے ملک کا سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کردیا گیا۔ آج دس برس بیت چکے ہیں۔ اس شام کی تقریب کو جس طرح قرآن پاک کی تلاوت سے مزین کیا گیا تھا، ان محبانِ وطن کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ آج تک لیبیا کے اندر کون سی ایسی شان دار تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں، جن سے اس سے قبل لیبیائی سماج محروم تھا۔ ہیلری کلنٹن کے مطابق؛ ’’لیبیا میں نیٹو کی مد اخلت کا سبب لیبیا کا سونے پر بنیاد کردہ کرنسی پلان تھا، جو یورو اور ڈالر کا مقابلہ کرسکتا تھا۔‘‘ امریکی مصنف براڈہوف نے اپنے ایک آرٹیکل (Hillary Email Reveal True Motive for Libya Intervention) اور ایک مغربی مصنف ایس آوان نے اپنے ایک مضمون (The Libya Conspiracy) میں لکھا ہے کہ: ’’سب سے پہلے قذافی کا تختہ اُلٹنے اور لیبیا کے معاشرے کے جبری اختتام کی بنیادی وجہ وہ عالمی اور نو آبادیاتی طاقتیں تھیں، جو لیبیا کے نظام پر کنٹرول اور لیبیا کے وسائل، تیل، پانی، سونے پر قبضہ کرنا چاہتی تھیں۔‘‘ (مراہ العارفین انٹر نیشنل، ستمبر 2017ئ) زمبابوے نژاد برطانوی وکیل لویڈ مسیپا نے اپنے ایک آرٹیکل "The Assassination of Mummar Gaddafi illegal under International Law" میں لکھاہے: ’’قذافی کا اصل جرم یہ تھا کہ انھوں نے آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی اداروں سے قرضہ لینے سے انکار کیا تھا۔ اس نے بین الا قوامی بینکاروں کے کلب میں شامل ہونے سے انکار کردیا اور اپنا ’پان- افریقی بینک‘ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا، جو افریقی ممالک کو قرض فراہم کرے۔ قذافی کے دورِ حکومت میں افریقی عرب ممالک میں لیبیا واحد ملک تھا، جو کسی بھی ملک یا ادارے کا مقروض نہیں تھا۔‘‘
قذافی کی موت کے بعد لیبیا کو دو حصوں بانٹ دیا گیا۔ قبائیلی سرداروں کو باہمی جنگ و جدل میں اُلجھا دیا گیا۔ ایک کا مرکز ’بن غازی‘ بن گیا تو دوسرے کا طرابلس یعنی تریپولی (Tiripoli)۔ یہ ملک کی سب سے بڑی، قدیم اور اہم بندر گاہ اور تجارتی ومالیاتی مرکز ہے۔ ملک کے مشرقی علاقے میں حزبِ اختلاف کے گروپوں کی سربراہی حفتر کو حاصل ہوگئی۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ یہ سارے گروپ سی آئی اے کی پشت پناہی سے ہی چل رہے تھے۔ بن غازی اور مسلح اسلامی گروپوں کے خلاف مشرقِ وسطیٰ میں اخوان المسلمین کے قریبی گروہوں سمیت لیبیا میں اسلام پسندوں کے مخالف ہونے کے طور پر اپنے آپ کو متحدہ عرب امارات اور مصر کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ اچنبھے کی بات نہیں تھی، کیوںکہ یہ سارے جتھے ایک ہی مرکز کی پیداوار تھے۔
حفتر نے 15؍ جنوری 2020ء کو ماسکو کا دورہ کیا تھا۔ Bloom berg کی 15؍ جنوری 2020ء کی رپورٹ کے مطابق اسے توقع تھی کہ روس اس کے لیے ریڈ کارپٹ کا اہتمام کرے گا، جب کہ اسے صرف وزارتِ خارجہ کے دفتر تک محدود رکھا گیا، جس کا اسے سخت صدمہ ہوا۔ المونیٹر کی 13؍ مئی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر کا مؤقف تھا کہ ہم لیبیا کے اندر ایک ایسا سیاسی نظام متعارف کروانا چاہتے ہیں، جو حقیقی معنوں میں عوام کا نمائندہ ہو۔ اس حوالے سے اس کے سامنے ایک مسودہ رکھا، جس پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا۔ حفتر کے مقابلے میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت ہے، جسے GNA (Government of National Accord) کہا جاتا ہے۔ اس حکومت کا سربراہ فیاض السراج ہے۔ اس نے جنگ بندی کے اس معاہدے پر دستخط کردیے، جب کہ حفتر نے غور و فکر کے لیے مزید وقت مانگا۔ روس اور ترکی کی مشترکہ کوشش ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو لیبیا کا سربراہ بننے کا موقع نہ دے، جو ماضی میں امریکی حساس ادارے سی آئی اے کی تربیت سے پروان چڑھا ہو۔ حفتر کا ماضی سی آئی اے کی ایجنٹی سے بھرا پڑا ہے۔ روسی صدر جو اپنے حساس ادارے کا خود سربراہ رہ چکا ہے، اس سے توقع کرنا کہ وہ اپنے مخالف ادارے کے لیبیائی سر براہ کو لیبیا کا سربراہ بنا دے گا، خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
Tags
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan