امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں :
(نبی اکرمؐ کی مخصوص دعاؤں سے متعلق احادیثِ نبویہؐ کی تشریح)
(1) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ہر ایک نبی کو ایک مقبول دعا عطا کی گئی تھی، جو انھوں نے اس دنیا میں ہی مانگ لی (اور قبول ہوگئی)۔ میں نے اپنی دعا اپنی اُمت کی سفارش کے لیے قیامت کے دن کے لیے محفوظ کرکے رکھ لی ہے۔ اور وہ ان شاء اللہ میری اُمت میں سے ہر اُس اُمتی کو ضرور حاصل ہوگی، جسے اس حال میں موت آئی کہ اُس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو‘‘۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2223)
(تشریح:) مَیں کہتا ہوں کہ: انبیا علیہم السلام کی بہت سی دعائیں قبول کی گئی ہیں۔ اور ایسے ہی ہمارے نبی اکرمؐ کی بھی بہت سے مواقع پر دعائیں قبول کی گئی ہیں، لیکن ہر نبیؑ کو ایک ایسی خاص دعا عطا کی گئی ہے، جو اللہ کی اُس رحمت سے پھوٹتی ہے، جو اُس نبیؑ کی نبوت کی بنیاد اور اُس کا مبدأ ہے کہ (الف) اگر لوگ اُس پر ایمان لائیں تو اُس رحمت کے سبب سے اُن پر برکات نازل ہوتی ہیں اور نبیؐ کے قلب سے اُن کے فائدے کے لیے دعا پھوٹتی ہے۔ (ب) اور اگر وہ اُس نبی کی تعلیمات سے روگردانی کریں تو اُس کے سبب اُن پر ذلت کا عذاب مسلط ہوتا ہے اور نبی کے دل میں اُن کے لیے بددعا پھوٹتی ہے۔
ہمارے نبی اکرمؐ نے یہ بات شعوری طور پر جان لی کہ آپؐ کی بعثت کے عظیم مقاصد میں سے یہ ہے کہ: (الف) آپؐ کل انسانوں کی سفارش کرنے کے لیے (اس لیے کہ ارشادِ خداوندی ہے: ’’اے محمدؐ! آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو! میں تم تمام کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ -7 الاعراف: 158) (ب) اور آپؐ حشر کے دن میں اللہ کی خاص رحمت کے نزول کے لیے واسطہ بنیں گے۔ چناں چہ آپؐ نے وہ دعا محفوظ کرلی، جو حشر کے دن آپؐ کی نبوت کے اصل مبدأ سے پھوٹنے والی عظیم ترین دعا تھی۔
(مترجم عرض کرتا ہے کہ: امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے ’’فیوض الحرمین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ: یہ دعا اُن دعاؤں میں سے نہیں ہے، جو کسی طالب کی کسی چیز میں خاص رغبت سے پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ وہ دعا ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربانی اور اُن پر رحمت کرتے ہوئے کسی رسول کو بھیجتا ہے تو بندوں کی حالت دو پہلوؤں سے خالی نہیں ہوتی۔ اگر وہ اُس نبی کی اطاعت کریں تو اللہ کی یہ رحمت اُن کے حق میں برکات کے نزول کا سبب بنتی ہے اور اگر وہ نافرمانی کریں تو اللہ کی یہ رحمت ناراضگی میں بدل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن پر سخت ناراض اور غضب ناک ہوتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اُس قوم کے نبی پر الہام کیا جاتا ہے کہ وہ (فرماں برداروں کے لیے) دعا کریں اور (نافرمانوں کے لیے) بددعا کریں۔ ایسی دعا ہر نبیؑ کو صرف ایک ہی دی جاتی ہے، جو دراصل اللہ کے اُس لطف و مہربانی سے پیدا ہوتی ہے، جو اُس نبیؑ کی بعثت کا سبب ہوتا ہے۔ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے اپنے نفسِ قدسیہ سے یہ پہچان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی بعثت کا یہ مقصد قرار نہیں دیا کہ آپ انسانوں پر صرف دنیا میں مہربان ہوں، بلکہ آپؐ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہے کہ آپؐ قیامت کے دن اللہ کی عمومی رحمت کا سبب بھی بنیں۔ اور یہ بات ہمیں بتائی جاچکی ہے کہ: ’’نبی اکرمؐ آخرت میں تمام انبیا علیہم السلام کی اُمتوں پر گواہ ہوں گے‘‘۔ (بخاری، حدیث: 4487) اور تمام اُمتوں پر گواہی دینا آپؐ کی خصوصیات میں سے ہے۔ چناں چہ آپؐ کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آپؐ اُس دعا کو _ جو آپؐ کے منشائِ نبوت سے پیدا ہوئی ہے _ قیامت کے دن کے لیے محفوظ رکھ لیں۔ اس راز کو پورے تدبر کے ساتھ محفوظ رکھیے‘‘۔ فُیوضُ الحَرَمَین، مَشْہَد: 40)
(2) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اے اللہ! میں نے آپ سے ایک عہد لیا ہے۔ بے شک آپ اُس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ میں ایک انسان ہوں، پس اگر مسلمانوں میں سے کسی کو میں نے کوئی تکلیف دی ہو، اُس کو بُرا بھلا کہا ہو، اُس پر لعنت بھیجی ہو، اس کی پٹائی کی ہو تو میرے ان اعمال کو اُس بندۂ مؤمن کے لیے رحمت اور پاکیزگی اور ایسی قربت کا باعث بنا، جس کی وجہ سے تُو اسے اپنا مقرب بنا لے‘‘۔ ( مشکوٰۃ: 2224)
(تشریح:) میں کہتا ہوں کہـ: نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اپنی اُمت پر رحمت اور اُن پر شفقت کا تقاضا ہوا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے سامنے پہلے سے ایک عہد و پیمان بھیجیں اور اس طرح آپؐ کی ’’ہمت‘‘ ’’حظیرۃ القدس‘‘ میں ایک مثالی وجود اختیار کرلے کہ جس سے مسلسل احکامات صادر ہوتے رہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپؐ کی قوم کے لیے آپؐ کی دلی طلب اور تمنا سے پھوٹنے والی پوشیدہ ہمت کا اعتبار کرتے ہیں، نہ کہ اُس ظاہری ہمت کا، جس کا تعلق گفتگو یا عمل سے ہے۔
(مترجم عرض کرتا ہے کہ: امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’القول الجمیل‘‘ میں ’’ہمت‘‘ کی تعریف یوں کی ہے: ’’ہمت‘‘ نام ہے انسانی خیالات کا ایک مقصد کے لیے ایک جگہ جمع ہوجانا اور تمنا اور طلب کی صورت میں عزم کا کچھ اس طرح سے پختہ ہوجانا کہ اس مقصد کے علاوہ کسی اَور چیز کا خیال بھی دل میں باقی نہ رہے۔ جیسا کہ ایک شدید پیاسے آدمی کا پانی طلب کرنا‘‘۔ القول الجمیل، فصل: 6)
یہ اس لیے کہ نبی اکرمؐ کا اپنے قول یا فعل سے کسی مسلمان کو کوئی سزا دینے کا ارادہ کرنا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انسانوں کے فائدے کے لیے اللہ کے پسندیدہ دین کا عملی نظام قائم کریں، لوگ بالکل سیدھے ہوجائیں، اُن کی کجی اور کمزوری دور ہوجائے۔
آپؐ کا کافروں کو سخت سزا دینے کا ارادہ اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ انھوں نے کفر اختیار کیا اور اُن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔ اس طرح آپؐ نے اللہ کے حکم کی موافقت کی۔ اس لیے مسلمانوں اور کافروں کو دی جانے والی سزاؤں کی وجوہات الگ الگ اُمور ہیں، اگرچہ ظاہری شکل و صورت میں یہ ایک جیسی ہی کیوں نہ نظر آتی ہوں‘‘۔ (باب الاذکارِ وما یتعلّق بھا)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…