امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
(5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگر یہ کہ دعا مانگی جائے‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 2233)
(تشریح) میں کہتا ہوں کہ: یہاں ’’قضا‘‘ سے مراد کسی کام کی وہ صورت ہے، جو عالمِ مثال میں پیدا کی گئی ہے، جو کہ کائنات میں کسی وقوعے کا سبب بنتی ہے۔ اور وہ وقوع پذیر ہونے والی مخلوقات کی طرح ہے، جسے ختم کرنا اور باقی رکھنا ممکن ہوتا ہے۔
(یعنی اس حدیث میں قضا سے مراد تقدیر نہیں ہے، بلکہ عالَمِ مثال میں اسباب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سزا یا جزا کی شکل و صورت ہے، جو دعا سے مٹ جاتی ہے۔مترجم(
(6) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بے شک دعا ہر صورت میں نفع دیتی ہے، خواہ اُس کا تعلق نازل ہوچکی مصیبت سے ہو، یا ایسی مصیبت سے جو ابھی نازل نہیں ہوئی۔ پس اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ دعا مانگا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ : 234)
(تشریح) میں کہتا ہوں کہ: دعا جب مستقبل میں کسی آنے والی مصیبت کا علاج کرتی ہے تو اُسے کمزور بنا دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ سبب نہیں پیدا ہوتا، جو زمین میں کسی واقعے کے وجود کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جب دعا نازل ہوچکی مصیبت کا علاج کرتی ہے تو اللہ کی رحمت اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ اُس کی تکلیف میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور اُس کی وحشت سے انسان مانوس ہوجاتا ہے۔
(7) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جو آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ سختیوں اور مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ اُس کی دعائیں قبول کرے تو اُسے چاہیے کہ آسانی اور خوش حالی میں بھی اللہ سے کثرت سے دُعا مانگے‘‘۔ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ، حدیث: 2240)
(تشریح)میں کہتا ہوں کہ: آپؐ نے یہ اس لیے فرمایا کہ دعا اُس وقت تک قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ کوئی آدمی پوری رغبت کے ساتھ دُعا مانگنے میں قوت ظاہر نہ کرے اور اپنے ارادے کی پختگی کو ظاہر نہ کرے۔ اس لیے انسان کو مصیبت آنے سے پہلے اپنے ارادوں کی پختگی اور رغبت کے ساتھ دعا کی خوب مشق کرنی چاہیے۔
(8) نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جب آپؐ دعا مانگتے تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے۔ اور دُعا کے بعد دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ (مشکوٰۃ، حدیث: 2255)
(تشریح) میں کہتا ہوں کہ: دعا مانگتے ہوئے دونوں ہاتھ اُٹھانا اور پھر انھیں اپنے چہرے پر پھیرنا دعا میں انسان کی رغبت کی عملی تصویر ہے۔ بدن کی یہ عملی تصویر اُس کی دل کی کیفیت کا عملی مظاہرہ ہے۔ اس طرح ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگنا دل کو متنبہ کرنا ہے۔
(9) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس آدمی کے لیے دعا مانگنے کا دروازہ کھول دیا گیا تو اُس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے‘‘۔ (مشکوٰۃ: 2239)
(تشریح) میں کہتا ہوں کہ: جس آدمی نے یہ جان لیا کہ دل کی گہرائی سے اُبھرنے والی رغبت کے ساتھ اللہ سے دعا مانگنے کی کیفیت اور لذت کیا ہوتی ہے؟ اور یہ جان لیا کہ اللہ کی طرف سے دعا کی قبولیت کس صورت میں ظاہر ہوتی ہے؟ اور اس طرح اُسے اللہ کے سامنے حضوری کی صفت کی مشق ہوگئی تو اُس کے لیے دنیا میں رحمت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور پھر ہر مصیبت میں اُس کی مدد کی جاتی ہے۔
ایسا آدمی جب مرتا ہے اور اُس کو اُس کے گناہ گھیر لیتے ہیں اور دنیاوی حالات اور معاملات کے پردے اُسے ڈھانپ لیتے ہیں تو اس وقت یہ آدمی دنیا میں دعا مانگنے کی مشق کے مطابق اللہ کی طرف پوری توجہ سے متوجہ ہوتا ہے۔ تو آخرت میں بھی اُس کی دعا قبول کی جائے گی۔ اور وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہو کر نکل جائے گا، جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔
)دعائیں قبول کرنے کے مواقع اور مقامات(
جان لینا چاہیے کہ دعاؤں کی سب سے زیادہ قبولیت اُس وقت ہوتی ہے، جب ایسی حالت میں مانگی جائیں کہ جب رحمت کے نازل ہونے کا موقع ہو۔ یہ مواقع درجِ ذیل ہیں:
(1) انسان میں کسی نیک عمل کے نتیجے میں کوئی کمال پیدا ہو، مثلاً نمازوں کی ادائیگی کے بعد دعا مانگنا، اور روزے دار کی ایسی دعا جو وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے۔
(2) جب اللہ کی رحمت کے نزول کے اسباب موجود ہوں، جیسا کہ عرفات کے میدان کی دعا۔
(3) جب کوئی ایسا سبب جو کائنات کا نظام چلانے والی اللہ کی عنایات سے موافقت رکھتا ہو، جیسا کہ مظلوم انسان کی دعا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عنایات میں سے یہ ہے کہ ظالم آدمی سے انتقام لیا جائے۔ مظلوم کی دعا اللہ کی اس عنایت اور مہربانی سے موافقت رکھتی ہے۔ چناں چہ اس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ: ’’مظلوم کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ اور حجاب حائل نہیں ہوتا‘‘۔ (رواہ الترمذی، حدیث: 2014)
(4) ایسا سبب کہ جس کی وجہ سے دنیا کی راحت سے انسان دور ہوجائے تو اللہ کی رحمت اُس کے حق میں کسی دوسری صورت میں متوجہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ کسی مریض کی دعا، یا کسی پریشانی میں مبتلا آدمی کی دعا قبول ہوتی ہے۔
(5) ایسا سبب کہ جس کی وجہ سے دعا میں اخلاص پیدا ہوجائے۔ جیسا کہ کسی آدمی کی نظروں سے غائب بھائی کے لیے دعا کرنا، یا والد کا اپنی اولاد کے لیے دعا مانگنا۔
(6) ایسے وقت میں دعا مانگی جائے کہ جس میں اللہ کی روحانیت فضا میں پھیلی ہوئی ہو اور اللہ کی رحمت نازل ہو رہی ہو۔ جیسا کہ شب ِقدر کی دعا اور جمعہ کے دن کی دعا۔
(7) ایسی جگہ جہاں فرشتے ہر وقت حاضر رہتے ہوں، جیسے مکہ مکرمہ کے مقدس مقامات ۔
(8) یا انسان ایسے مقامات پر حاضر ہو کہ جہاں اُس کے نفس میں اللہ کے سامنے حضور و خشوع کی حالت پیدا ہوتی ہو۔ جیساکہ انبیا علیہم السلام سے نسبت رکھنے والے مقامات (مثلاً طور پہاڑ، مقامِ ابراہیم، مسجد ِحرام، مسجد ِنبویؐ اور بیت المقدس وغیرہ)۔
جو کچھ ہم نے پیچھے دعا سے متعلق اُمور بیان کیے ہیں، ان پر قیاس کرنے سے نبی اکرمؐ کے اس قول کا راز بھی معلوم کیا جاسکتا ہے، جس میں آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بندے کی دعا ہمیشہ اُس وقت تک قبول کی جاتی ہے، جب کہ وہ گناہ کرنے کی دعا نہ مانگے، رشتے کو کاٹنے کی دعا نہ مانگے اور جب تک وہ جلد بازی نہ دکھائے‘‘۔ آپؐ سے پوچھا گیا کہ: جلد بازی کا کیا مطلب ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بندہ یہ کہے کہ میں نے دعا مانگی، اور پھر میں نے دعا مانگی، لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی اور نااُمید ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے‘‘۔ (رواہ مسلم، حدیث: 6936)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
اخلاص کی اہمیت اور رِیاکاری کی مذمت
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ نیت روح ہے اور عبادت جسم ہے۔ جسم بغیر روح کے زندہ ن…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…