(اضداد کے اجتماع اور جدوجہد کاقانون)
کائنات متنوع تجربات کی جولان گاہ ہے۔ انسان اپنے خالق کی انتہائی شان دار تخلیق ہے۔ اس کی شان کا کمال یہ ہے کہ وہ نت نئے اور انوکھے تجربات کے ذریعے معاشرے میں مختلف رنگ بکھیر تا رہتا ہے۔ ایک زمانے میں استعماری قوتوں نے طاقت اور قوت کے بل بوتے پر مشرقِ وسطیٰ میں صیہونی ریاست قائم کی۔ ریاست کا قیام بے گناہ لاکھوں انسانی جانوں کے بے دریغ بہائے گئے خون کے سمندر میں ڈبو کر عمل میں لایا گیا۔ اسی طرح کا ایک تجربہ نہتے انسانوں کی لاشوں پر تعمیر کیے گئے ایک ملک سے کیا گیا۔ یہ ملک جنوبی ایشیا کے مرکز میں واقع ہے۔
چالیس سال قبل جس جنگ کا آغاز ہوا تھا، آج وہ ایک نئی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس جنگ کا آغاز کرنے والا طاغوت تھا۔ وہ اپنے چیلوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ آور ہوگیا۔ اس کی پارلیمنٹ میں یہ بات زیر بحث آئی کہ سوشلزم کو ویت نام کے راستے سے تو ہم نہیں روک سکے، البتہ اب ہمیں افغانستان کے راستے روس کے آگے بند باندھنا چاہیے۔ چناں چہ اس کام کے لیے پاکستان کا استعمال مناسب ترین قرار دیا گیا۔ پاکستان کی مقتدرہ نے اس کام کو انتہائی خوش دلی سے سرانجام دیا۔
14؍ اپریل 1988ء کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلا کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ یہ معاہدہ چھ سال کی مسلسل کوششوںکے نتیجے میں تشکیل پایا تھا۔ 38 صفحات کے اس تاریخی معاہدے کے مطابق سوویت افواج کی واپسی کا عمل 15؍ مئی 1988ء سے 15؍ فروری 1989ء تک مکمل ہونا طے پایا۔
17؍ اگست 1988ء کو افغانستان سے سویت یونین کے انخلا اور اس کے تحلیل ہونے سے قبل اس آپریشن کی ذمہ دار پوری ٹیم کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ اگست 1990ء میں جنگ و جدل کے لیے اگلا محاذ مشرقِ وسطیٰ میں کھول دیا گیا۔ عراق کے کویت پر حملے کے نتیجے میں تمام بھیڑیے عراق پر ’’آپریشن ڈیزرٹ اسٹارم‘‘ (operation desert storm)کے نام سے حملہ آور ہوگئے اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجتے ہی پورا مشرقِ وسطیٰ شعلوں کی لپیٹ میں آگیا۔
امریکا کے پیچھے دو سوسالہ انقلاب کی محنتیں تھیں۔ اجتماعی اداروں کے قیام اور کردار سے امریکا کی موجودہ ریاست مضبوط اور مستحکم ہوئی تھی، لیکن جوں ہی اس کا اقتدار نااہل قیادت کو منتقل ہوا، انھوں نے نہ صرف اپنے ملک کے وسائل تباہ وبرباد کردیے، بلکہ آئندہ کے لیے عالمی بالادستی کا اختیار بھی اپنے ہاتھ سے کھو دیا۔
امریکا کی برائن یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان کی جنگ میں امریکا نے 8 کھرب ڈالر اور 9 لاکھ انسانی جانوں کو اس آگ میں جھونک دیا۔ (یونیورسٹی کی تازہ ترین رپورٹ) ویسے تو سرمایہ دار بلامفاد کے ایک پائی بھی خرچ نہیں کرتا، لیکن غور کرنا ہے کہ اس جنگ میں استعمار نے کیا مفاد حاصل کیا۔ جہاں تک اصل ہدف کا تعلق ہے بہ ظاہر تو اس میں کوئی کامیابی نظر نہیں آتی، البتہ جہاں تک پلانBکے طور پر ملکوں کے وسائل لوٹنے کا تعلق ہے، یقینا اس میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہوں گی۔ کیوں کہ ’’داعش‘‘ جیسے عفریت کے ذریعے عراق، شام اور لیبیا کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرکے اس کے معدنی وسائل کو لوٹ لیا گیا ہے۔ ویسے پلانBہمیشہ پلانAکی ناکامی کے بعد ہی اختیار کیا جاتا ہے۔
1989ء میں سوویت یونین ایک قدم پیچھے ہٹ کر آج کئی قدم آگے بڑھ چکا ہے۔ 11؍ اگست 2021ء کو قطر کے دارلحکومت دوحہ میں روس کی میزبانی میں ہونے والے چار ملکی روس، چین، امریکا اور پاکستان مذاکرات کے نتیجے میں امریکا کی حمایت یافتہ اشرف غنی کی حکومت کو پیچھے ہٹا دیا گیا۔ انھوں نے طالبان کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ علاقائی طاقتوں کی حمایت یافتہ حکومت افغانستان میں قائم ہوگئی۔ چوں کہ یہ ایک نوزائیدہ حکومت ہے، لہٰذا اِسے تحفظ کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کے اردگرد چھ ملکی حصار قائم کیا گیا، جس میں روس، چین، تاجکستان، ترکمانستان، ازبکستان اور پاکستان شامل ہیں۔ 7؍ ستمبر 2021ء کو اس کی عبوری کابینہ کا اعلان کیا گیا۔ نئی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب میں روس، چین، ایران، قطر، ترکی اور پا کستان کو دعوت دی گئی۔ کابینہ کی تشکیل سے پہلے طالبان نے کہا تھا کہ وہ ایرانی نظامِ حکومت اختیار کریں گے، لیکن اَن دیکھی طاقتوں نے سامراجی ملکوں کے دباؤ پر یہ تقریب ملتوی کردی۔
افغانستان کی حکومت دنیا میں اپنی نوعیت کی انوکھی حکومت شمار ہوگی۔ دنیا میں خفیہ ادارے خفیہ انداز سے کام کرتے ہیں۔ خفیہ ادارے اپنی تمام تر سرگرمیاں خفیہ رکھتے ہیں، تاوقتیکہ ان کا منصوبہ حتمی طور پر مکمل نہ ہوجائے۔ افغانستان میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنر نے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر سے کابل میں ملاقات کی، جسے اگلے روز شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنایا گیا۔ (اے ایف پی، رائٹر ز 24؍ اگست 2021ء) اس کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کابل پہنچ گئے۔ ان کا یہ دورہ میڈیا پر موضوعِ بحث بن گیا۔ (6؍ ستمبر 2021ء) گویا دونوں ایجنسیوں نے اپنا اپنا ہدف مکمل کرلیا ہے۔
امریکی اپنے انخلا کو مکمل کر نے کے بعد نمایاں ہوگئے اور پاکستان اپنا ٹاسک حاصل کرکے میڈیا پر نمودار ہوگیا۔ ایک ملک جو خود ایجنسی کی مرہون تھا، ا پنی کھوکھ سے دوسرے ملک کو جنم دینے کا سبب بن گیا۔ اس ایجنسی نے کئی سالوں کی جدوجہد کے نتیجے میں نہ صرف پورے کا پورا سماجی ماڈل کھڑا کر دیا، بلکہ اسے تحفظ دینے کے لیے اس کے گرد حصار بھی قائم کر دی۔ جو دنیا کے لیے وطیرۂ حیرانی بن گیا۔ کائنات میں یہی اضداد کے اجتماع اور جدوجہد کا قانون ہے۔
Tags
Mirza Muhammad Ramzan
Mirza Muhammad Ramzan
Related Articles
جنگی بلاکوں کی ذہنیت‘ کلونیل عہد کا تسلسل ہے
ہمارے گرد و پیش کی دنیا‘ نِت نئے حادثات و واقعات کی زد میں رہتی ہے۔ ہم مسلسل قومی اور بین الاقوامی سطح پر تازہ بہ تازہ صورتِ حال کو ملاحظہ کرتے رہتے ہیں۔ آج کی دُنیا …
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…
افغانستان کو درپیش معاشی چیلنجز
یورپی نوآبادیاتی نظام کو ختم ہوئے نصف صدی سے زائد ہوچلے، لیکن ہم گزشتہ ساٹھ ستر سالوں کے بد ترین تجربے اور اِبتلاؤں کا سامنا کرنے کے باوجود یہ نہیں سمجھ سکے کہ آزادی کہتے…