امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’(انسانیت کے بنیادی اَخلاق میں سے) چوتھا اصول ’’عدالت‘‘ ہے۔
(عدالت کی حقیقت اور معنویت)
عدالت ایک ایسے مَلَکہ (استعداد اور صلاحیت) کا نام ہے کہ جس کے ذریعے سے بڑے سہل انداز میں گھریلو نظام (سے لے کر) قومی اور بین الاقوامی سیاست اور ملکی اداروں کے نظم و نسق کو عدل و انصاف کے مطابق صالح طور پر قائم کیا جائے۔
عدالت کے اس مَلَکہ کی اصل بنیاد انسانی نفس کی ایسی جبلت اور فطرت ہے کہ جس میں (سوسائٹی سے متعلق) ’’افکارِ کُلّیہ‘‘ (جامعیت پر مبنی کلی افکار) ظاہر ہوں۔ اور (اُن کے ذریعے سے) عملی طور پر ایسا سیاسی نظام وجود میں آئے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ اور اُس کے فرشتوں کے ساتھ پسندیدہ نسبت رکھتا ہو۔
]اِمامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’افکارِ کُلّیہ‘‘ سے مراد ایسے افکار و نظریات اور خیالات ہیں کہ جو جمہور انسانوں کے لیے نفع بخش ثابت ہوں۔ اس کی ضد ایسے افکار و خیالات و نظریات ہوتے ہیں، جو انفرادیت او رشخصی مفادات پر مبنی ہیں۔[
(اللہ کے نزدیک عدل و انصاف کے بنیادی اُمور)
اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں درجِ ذیل اُمور کا ارادہ فرمایا ہے:
(1) انسانی معاملات کا انتظام صحیح طور پر قائم ہو۔
(2) اور یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کریں۔
(3) اور یہ کہ کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ ڈھائے۔
(4) اور یہ کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر باہم محبت سے رہیں۔
(5) اور یہ کہ وہ ایک جسم کے مانند ایسے طور پر زندگی بسر کریں کہ اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو اُس کے باقی تمام اعضا بخار اور تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(6) اور یہ کہ انسانوں کی نسل کثرت سے بڑھے، (نسل کشی کا ماحول نہ ہو)۔
(7) اور یہ کہ اُن کے قانون شکن لوگوں کو سزائیں دی جائیں۔
(8) اور یہ کہ اُن کے عدل و انصاف کرنے والوں کی عزت کی جائے۔
(9) اور یہ کہ اُن میں رائج فاسد رسومات اور نظاموں کا خاتمہ کیا جائے۔
(10)اور یہ کہ اُن میں بھلائی پر مبنی سچے اور برحق قوانین کا نظام غالب کیا جائے۔
اس حوالے سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اجمالی طور پر ’’قضا‘‘ (فیصلہ) جاری کردیا۔ اس طرح یہ تمام اُمور اُس اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی تشریح اور تفصیل ہیں۔
]اِمامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ کی جانب سے جاری ہونے والی قضا اور فیصلے کی تشریح اور تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ تمام اُمور اِجمالی طور پر ازل سے ہی انسانیت کے لیے لکھ دیے تھے۔ پھر ان اُمور کا اظہار یکے بعد دیگرے وقتاً فوقتاً عدم سے وجود میں آتا رہا۔اس طرح یہ دس اُمور وجود میں آئے۔[
(عدل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کے کام)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتوں کو ان امور کی تلقین کی ہے۔ اس لیے:
(الف) وہ فرشتے اُن تمام لوگوں کے لیے دعا کرتے ہیں، جو انسانیت میں عدل و انصاف کے مطابق جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔
(ب) اور اُن تمام لوگوں پر لعنت بھیجتے ہیں، جو لوگ انسانیت میں فساد پیدا کرتے ہیں۔
یہ بات (درجِ ذیل آیات) میں ہے:
(1)اللہ تعالیٰ نے (سورت النور آیت: 55 میں )ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے عملِ صالح کیے، یہ وعدہ کرلیا ہے کہ:
(الف) انھیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا، جیساکہ اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔
(ب) اللہ اپنے پسندیدہ دین اور نظام کو مضبوط اور مستحکم کرے گا۔
(ج) اور اللہ تعالیٰ ضرور اُن کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔
(د) انھیں چاہیے کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
(ہ) جس نے اس کے بعد کفر کیا اور ناشکری کی، سو وہی لوگ فاسق اور نافرمان ہیں‘‘۔
(2)اللہ تعالیٰ نے (سورت الرعد آیت: 20 تا 24) میں ارشاد فرمایا:
(الف) ’’وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور انھیں نہیں توڑتے۔
(ب) اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، انھیں وہ لوگ جوڑتے اور ملاتے ہیں۔ اور وہ اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب کا خوف رکھتے ہیں۔
(ج) جو لوگ اپنے ربّ کی خوشی اور رضا کے لیے صبر و استقامت اختیار کرتے ہیں۔ اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے رزق دیا، اُس کو ظاہری اور خفیہ طور پر خرچ کرتے ہیں۔ اور برائی کا مقابلہ اچھائی سے کرتے ہیں۔ انھیں کے لیے آخرت کا گھر ہے۔
(د) ایسے لوگ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہوں گے اور جو اُن کے آباؤ اَجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے نیک ہوں گے، وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور فرشتے اُن پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے۔ فرشتے ان پر سلامتی کہیں گے۔ اس وجہ سے کہ جو تم نے صبر کیا۔ پس تمھیں آخرت کا گھر بہت اچھاملا‘‘۔
(3)اللہ تعالیٰ نے (سورت الرعد آیت: 25) میں ظلم کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:
(الف) ’’وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے پختہ طور پر کیے ہوئے معاہدات کو توڑا۔
(ب) اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا تھا، انھیں توڑا۔
(ج) اور انھوں نے زمین میں فساد مچایا۔
(د) ایسے لوگوں پر (اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے) لعنت ہے اور اُن کے لیے بہت ہی بُرا گھر ہے‘‘۔ (جاری ہے۔۔)
(من أبواب الإحسان، باب(1): علمُ الشّرائع و الإحسان)
Mufti Abdul Khaliq Azad Raipuri
Spiritual Mentor of Khanqah Aalia Rahimia Qadiria Azizia Raipur
Chief Administrator Rahimia Institute of Quranic Sciences
Related Articles
صبح، شام اور سونے کے وقت کے اذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ ﷺ نے ذکر اللہ کے لیے تین اوقات مسنون قرار دیے ہیں: (…
اَخلاق کی درستگی کے لیے دس مسنون ذکر و اذکار (6)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’قضائے خداوندی نہیں ٹلتی، مگ…
تلاوت، ذکر اور دُعا کی روح
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : (تلاوتِ قرآن حکیم کی روح) ’’قرآن حکیم کی تلاوت کی روح یہ ہے کہ: ب…
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…