عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍؓ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:
’’سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَّقِتَالُہُ کُفْرٌ‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث: 221)
(حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’مسلمان کو گالی دینا گناہ کا کام ہے اور اس سے لڑائی کرنا اسلام سے انکار کرنا ہے‘‘۔ )
’’سِباب‘‘ کہتے ہیں: گالی دینا، بُرے الفاظ بولنا، جس سے دوسرے کی توہین اور بے عزتی ہو۔ اس عمل کو فسق کہا گیا ہے۔ ’’فسق‘‘ کہتے ہیں: شریعت کے احکامات سے انحراف اور گریز کرنا۔ یعنی: دین کو ماننے کے باوجود عملی لحاظ سے غفلت کا شکار ہوجانا اور قتال کا معنی: فریقین کا اس طرح لڑنا کہ ہر ایک دوسرے کی جان لینے کے درپے ہوں۔
دونوں اعمال کے نتائج میں فرق ہے۔ پہلا عمل اسلام کو مانتے ہوئے، اس کے احکامات کو نظرانداز کرنا ہے۔ اس سے انسان اسلام کے دائرے میں رہتا ہے، مگر ایک گناہ گار کی حیثیت سے، جب کہ قتال‘ کفر کے مترادف ہے۔ گویا ایسے شخص نے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ امن کا دشمن بن کر سامنے آیا ہے۔
رسول اللہﷺ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو عملی زندگی میں باوقار طریقہ اپنانا ہے۔ ایسا طریقہ جو دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو۔ انسان کے باوقار ہونے کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ وہ خود ایسے کام نہ کرے، جن سے اس کی عزت متأثر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ دوسرے کے ساتھ ایسا طرزِعمل نہ اپنائے کہ اس کی عزت پامال ہوجائے۔ ایسا طرزِتکلم جو دوسرے کی بے عزتی کا باعث ہو اور خود اپنے وقار کو بھی متأثر کرے، مؤمن کی شان کے خلاف ہے۔ جو لوگ دوسروں کی عزتوں کو اُچھالتے ہیں، توہین کرتے ہیں اور ان کو دوسروں کے سامنے ذلیل کرنے اور گِرانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے ان کا مقام و مرتبہ متأثر ہوتا ہے۔ اس طرزِعمل کو ’’فسق‘‘ کہا گیا ہے، یعنی: ایسا شخص گویا شریعت کے انسانی تقاضوں کو نظرانداز کررہا ہے۔ اور اگر یہ رویہ اجتماعی شکل اختیار کرلے تو یہ قومی وجود کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اس مرض کا شکار ہے۔ اس ضمن میں ’’سورۂ حجرات‘‘ کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ یہ سورت مسلمانوں کے باہمی معاملات اور تعلقات کے سماجی آداب کو بیان کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں قتال کا مرض بھی بڑھ رہا ہے۔ اس قبیح عمل کے شکار لوگوں میں بے رحمی اور بے حسی بے انتہا ہوچکی ہے۔ اور قانون نافذ کرنے والے ایسی گماشتہ قوتوں کے سامنے بے بس ہیں، بلکہ اکثر اوقات سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں مقتول اور مظلوم بالکل بے دست و پا ہوجاتا ہے جو معاشرتی استحکام کے لیے خطرناک علامت ہے۔ اس مرض کا علاج وقت کا اہم تقاضا ہے۔
Tags
Maulana Dr Muhammad Nasir
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
Related Articles
چار بنیادی انسانی اَخلاق حاصل کرنے کے طریقے
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جاننا چاہیے کہ ان چار اَخلاق (طہارت، اِخبات، سماحت، عدالت) کے: (الف)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (2)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چوتھی حدیث:)…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’جب تم نے (ان چاروں اَخلاق؛ طہارت، اِخبات، سماحت اور عدالت کے) اصول ج…
چاروں اَخلاق کے حصول کے لیے مسنون ذکر و اَذکار (3)
امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حُجّۃُ اللّٰہِ البالِغہ‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’(اَخلاقِ اربعہ کے حصول کے مسنون ذکر و اذکار کی اہمیت پر چھٹی حدیث:) …