حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے نام ور شاگرد اور تحریکِ ریشمی رومال کے سلسلے میں ایک اَور نمایاں نام قاضی القضاۃ مولانا عبدالرزاق خاںؒ کا بھی ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے غزنی‘ افغانستان میںحاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ مظاہرالعلوم سہارن پور میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میںمولانا احمد حسنؒ، مولانا محمد مظہرؒ اور مولانا احمد علی محدث سہارن پوریؒ شامل ہیں۔ جامعہ مظاہرالعلوم سے تحصیلِ علم کے بعد اپنے ہم سبق مولانا احمدالدین چکوالیؒ کے ہمراہ گنگوہ تشریف لے گئے، جہاں دونوں حضرات نے مل کر امامِ ربانی حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ سے احادیث کی کتب دوبارہ پڑھیں۔
مولانا افغانیؒ‘ مولانا احمدالدین چکوالیؒ کے ہم سبق ہونے کی وجہ سے تحریکِ ریشمی رومال میں شامل ہوئے اور حضرت شیخ الہندؒ کے ساتھ محبت اور عقیدت کا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ مولانا احمدالدینؒ کی مسجد ’’صوفی مسجد‘‘ کشمیری بازار لاہور میں قیام پذیر حریت پسندوں کو کابل بھیجنے کے لیے مولانا موصوفؒ سے ہی تعاون لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مالی معاونت اور افرادی قوت کی فراہمی میں دونوں حریت پسندوں کا باہمی تعلق تحریک کے لیے بہت مؤثر ثابت ہو رہا تھا۔ ٹیم ورک کی صورت میں کام کرنے کے اسلوب کو اختیار کیا گیا، تاکہ منظم انداز میں تحریکِ ریشمی رومال کی معاونت کو جاری رکھا جائے۔ مولانا ممدوح کابل میں بیٹھ کر ساری سرگرمیوں میں برابر کے شریک رہے۔
کابل تشریف لے جانے کے بعد مولانا موصوف کابل یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ ریاضی، ہیئت اور حدیث کے علاوہ انھیں اسلامی تاریخ اور جغرافیے میں بھی کمال حاصل تھا۔ کابل یونیورسٹی میں فلکیات کے موضوع پر لیکچرز دیا کرتے تھے۔ افغانستان میں ان دنوں شرعی فیصلوں کے لیے ایک محکمہ ’’میزان التحقیقات الشرعیہ‘‘ قائم تھا۔ مولانا موصوفؒ کو ان کی قائدانہ صلاحیت اور علمی قابلیت کی بنیاد پر اس محکمے کا رئیس (چیف جسٹس) مقرر کیا گیا تھا۔ اعلیٰ حضرت امیر حبیب اللہ خان نے اپنے بیٹے سردار عنایت اللہ کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کا انتخاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امیر حبیب اللہ خان کے بھائی سردار نصراللہ خان کے ساتھ بھی مولاناؒکا اعتماد کا تعلق تھا۔
قاضی عبد الرزاق خاںؒ کا شمار افغانستان کی انقلابی پارٹی کے سر کردہ رہنمائوں میں کیا جاسکتا ہے۔ تحریکِ شیخ الہندؒ کے موصوف پر اعتماد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ، حضرت شیخ الہندؒ کے حکم سے کابل تشریف لے گئے تو اس وقت حضرت سندھیؒ کی اوّلین کوشش یہی تھی کہ کسی مؤثر طریقے سے امیرِ افغانستان کے دربار میں رسائی حاصل کر کے تحریکِ شیخ الہندؒ کا تعارف ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ اسی دوران حضرت سندھیؒ کی ملاقات قاضی عبدالرزاق خاںؒ سے ہوئی۔ حضرت سندھیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’قاضی عبدالرزاق سے ملاقات کے دوران پرانے علمی دوستوں کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ ہمارے اس سفرِ کابل سے متعلق ان کے پاس اطلاعات پہلے سے موجود تھیں۔ انھیں جب اچھی طرح اطمینان ہو گیا کہ میرا نام ہی عبیداللہ ہے تو بہت مسرور ہوئے‘‘۔ (ذاتی ڈائری)
افغانستان کے نائب السلطنت سردار عنایت اللہ خاں سے حضرت سندھیؒ کی پہلی ملاقات کا اہتمام مولانا قاضی عبدالرزاقؒ کے ذریعے سے ہی ممکن ہو سکا تھا۔ دو گھنٹے کی اس خصوصی ملاقات میں ان تین افراد کے علاوہ کوئی شریک نہ تھا۔ اسی ملاقات کے دوران نائب السلطنت کا حضرت سندھیؒ پر اعتماد بیٹھ گیا اور انھوں نے حضرت سندھیؒ اور ان کی تحریک کے حق میں ایک خط بھی دیا، جس سے کابل میں موجود انقلابی پارٹی کو کام کرنے میں بہت سہولت حاصل ہوگئی۔ یہی خط بعد میں نائب السلطنت کے واسطے سے اعلیٰ حضرت امیر حبیب اللہ خان شہید کے ساتھ ملاقات کا سبب بنا۔
مولانا موصوفؒ نے برطانوی حکومت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اپنے شاگردوں کی ذہن سازی بھی کی اور ان میں حریت و آزادی کی روح پھونکی۔ تعلیم و تعلّم کے دوران انھیں اس بات پر بھی تیار کیا کہ وہ انگریزوں کے خلاف عملی جدوجہد میں شریک ہوں۔ اس جدوجہد کے دوران 150 قابل اعتماد دوستوں کی ایک جماعت بھی تیار کرلی تھی جو حریت و آزادی کے جذبے سے سرشار تھی۔ برطانیہ کی جانب سے جاری سی آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق: ’’مولانا قاضی عبدالرزاقؒ سردار نصر اللہ خاں کا معتمد خاص ہے۔ سردار اسی کے ذریعے سے سرحد کے دوسرے ممتاز ملائوں سے خط و کتابت کرتا ہے۔ تمام بڑے ملائوں کا خاص دوست ہے۔ اطلاع ملی تھی کہ 1908ء میں 150 پیروئوں کے ہمراہ برطانیہ کے خلاف غزوہ (جنگ) میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہو اتھا، لیکن امیر نے کسی وجہ سے اسے روک دیا تھا۔ کابل میں ہندوستانی انقلابی پارٹی کا پشت پناہ ہے۔ سرحد پار جتنی بھی (برطانیہ کے خلاف) متعصبانہ کارروائیاں ہوتی ہیں، ان سب کی ڈور یہی شخص ہلاتا ہے۔ حالیہ قبائلی شورشوں سے اس کا گہرا تعلق ہے‘‘۔ (ریشمی خطوط کی ڈائریکٹری)مولانا قاضی عبدالرزاقؒ کابل میں تقریباً 40 سال تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔ افغانستان میں تمام علما ان کے براہِ راست یا بالواسطہ شاگرد تھے۔ علمی اور حکومتی طبقہ انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ افغانستان میں جدید دور کی تعلیم کو عام کرنے کے حق میں پیش پیش رہے۔ امیر امان اللہ خان کے دور میں ضعف کے باعث سرکاری ملازمت ترک کرکے درس و تدریس کو زیادہ وقت دینے لگے۔
آخری ایام میں زکام و بخار کی کیفیت اس قدر بڑھ گئی کہ نمونیہ کی مہلک صورت پیدا ہوگئی۔ ۱۶؍ رمضان المبارک ۱۳۴۳ھ / 11؍ اپریل1925ء کو اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب کوچ کر گئے۔ نماز ِجنازہ میں اکابر علما، اعلیٰ عہدے داران اور وزرا شریک تھے۔ تدفین مولانا موصوفؒ کے آبائی علاقے غزنی میں کی گئی۔ (ماہنامہ معارف) اللہ تعالیٰ ان اکابرین کی مساعی کے مطابق ہمیں بھی عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین!)
Tags
Wasim Ejaz
جناب وسیم اعجاز مرے کالج سیالکوٹ میں زیر تعلیم رہے اور پنجاب یونیورسٹی لاہور کے گریجویٹ ہیں۔ آج کل قومی فضائی ادارے PIA کے شعبہ انجینئرنگ میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1992ء میں حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے دامنِ تربیت سے وابستہ ہوئے۔ حضرت مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی زیر سرپرستی تعلیمی ، تربیتی اور ابلاغی سرگرمیوں میں ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ برعظیم پاک و ہند کی سماجی و سیاسی تاریخ، حریت پسند شخصیات کے احوال و وقائع ان کی دلچسپی کے خاص میدان ہیں۔ اردو ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں ۔ مجلہ "رحیمیہ" لاہور میں گزشتہ کئی سالوں سے "عظمت کے مینار" کے نام سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔