ظالم نظام کی حمایت کا ناقابلِ تلافی نقصان

ظالم نظام کی حمایت کا ناقابلِ تلافی نقصان

عَنْ أَبِی سَعِیْدنِ الْخُدْرِیِّ عَنْ النَّبِیِّﷺ قَالَ: ’’تَکُوْنُ أُمَرَائُ تَغْشَاھُمْ غَوَاشٍ أَو حَوَاشٍ مِنَ النَّاسِ یَظْلِمُوْنَ وَ یَکْذِبُوْنَ، فَمَنْ دَخَلَ عَلَیْھِمْ فَصَدَّقْھُمْ بِکَذِبِھِمْ، وَ أَعَانَھُمْ عَلٰی ظُلْمِھِمْ، فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہٗ، وَمَنْ لَمْ یَدْخُلْ عَلَیْھِمْ، وَ یُصَدِّقْھُمْ بِکَذِبِھِمْ، وَ یُعِنْھُمْ عَلَی ظُلْمِھِمْ، فَھُوَ مِنیّ و أَنَا مِنْہٗ۔‘‘ (مُسنَد أحمد، 11135) 
(حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’کچھ حکمران ہوں گے، کمینے قسم کے لوگ ان کے پاس کثرت سے ہوں گے۔ وہ ظلم کریں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ جو آدمی ان کے پاس جاکر ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا، اس کا مجھ سے اور میرا اس سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ جو آدمی ان کے پاس نہ گیا، ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کی اور نہ ہی ظلم پر ان کی مدد کی، وہ مجھ سے ہے اور میں اس کا ہوں۔‘‘) 
جس وقت نظامِ ظلم قائم ہوجائے اور سسٹم پر نااہل، ظلم پسند اور ظلم و جور کرنے والے لوگ مسلط ہوجائیں تو انسان کو اس وقت کیا حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے؟ ایک صالح انسان کا کیا طرز ِعمل ہونا چاہیے؟ یہ حدیث اس حوالے سے ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ آپﷺ فرما رہے ہیں کہ اگر اُمت پر کوئی وقت ایسا آجائے کہ ان پر ظالم لوگ مسلط ہوجائیں تو ان کی مجلس اور ہم نشینی سے حتیٰ الوسع گریز کرنا چاہیے۔ ان کی مجالس میں بیٹھنا اور ان کے پاس آنا جانا، ان کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بننا قطعی طور پر درست نہیں۔ اس لیے کہ جو شخص اُن کا ہم نوا، مددگار اور ان کی حمایت کرے گا، وہ رسول اللہؐ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔ نبیؐ اس کے بارے میں اپنے سے دُوری کی بہت سخت وعید سنارہے ہیں۔ 
رسول اللہﷺ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ایک مؤمن کو اُمت پر مسلط ظالم نظام کسی صورت گوارہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو ظالم نظام اور ظالم حکمرانوں کی مقاربت اور ان کی ہم نشینی اختیار کرتے ہیں اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرتے ہیں، وہ خواہ اہلِ سیاست سے ہوں، اہلِ مذہب سے ہوں، یا عوام الناس ہوں تو ان کے بارے میں رسولؐ نے نہایت ناپسندیدگی اور ناگواری کا اِظہار کیا ہے۔ یوں آپﷺ ایسے لوگوں اور نظاموں سے دور رہنے اور اُن کے مقابلے کی حکمتِ عملی بنانے اور اس ماحول کو بدلنے کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب ایک مخلص مسلمان کو دے رہے ہیں۔ مزید آپؐ یہ فرما رہے ہیں کہ ایسے لوگ جو اس ظالم نظام اور حکمرانوں کے خلاف عملی جدوجہد میں مشغول رہیں گے، ظلم پسند نظام کے خلاف نظریاتی اور اجتماعی جدوجہد کے حوالے سے ہمہ تن مشغول ہوں گے۔ انھیں روز ِمحشر رسول اللہﷺ کی معیت اور قرب نصیب ہوگا۔ اس بنا پہ ظالم نظام کے خلاف محض زبانی مخالفت، مگر عملاً اس کی پشتیبانی درست عمل نہیں، بلکہ ظالم نظام کی مزاحمت کا عمل دنیا و آخرت کی بھلائی کا راستہ ہے۔
 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز

پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ  گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔  "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔