عَنْ اِبْنِ عُمَرَؓ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِﷺ عِنْدَ حُجْرَۃِ عَائِشَۃَ یَقُوْلُ: ’’یُنْصَبُ لِکُلَّ غَادِرٍ لِوَائٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا غَدْرَۃَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَۃِ إِمَامِ عَامَّۃٍ۔‘‘ (مسند احمد، 5378)
(حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبیﷺ کو حجرئہ حضرت عائشہؓ کے قریب یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور سربراہِ مملکت کے دھوکے سے بڑھ کر کسی کا دھوکا نہ ہوگا۔‘‘)
عادل حکمرانوں کے فضائل کا ذکر احادیثِ مبارکہ میں ملتا ہے۔ روز ِمحشر عادل حکمران کو اللہ عرش کے سائے تلے بُلا لیں گے۔ (رواہ البخاری) لیکن زیرِغور حدیث میں اس حکمران کو تنبیہ کی گئی ہے، جو دھوکے بازی سے کام لیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ روز ِقیامت ایک ایسا جھنڈا جو سب سے بڑا ہوگا، اُس حکمران کے لیے گاڑا جائے گا جو عوام کو دھوکا دیتا رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عوام کے حقوق کی ادائیگی، ان کے مفادات کا تحفظ اور اجتماعی مسائل کے حل کے بجائے ان کو جھوٹے وعدوں پہ ٹرخایا جاتا رہے۔ ان کے حقوق کی فراہمی سے روگردانی کی جائے۔ بدیسی لوگوں، غیرملکی حکمرانوں کے ساتھ درپردہ یا اعلانیہ ایسے معاہدات کیے جائیں جو قوم کے لیے نقصان، غلامی، محتاجی اور ان کی بے عزتی کا باعث ہوں۔ حکمرانوں کا یہ طرز ِعمل نبی اکرمؐ کو بہت ناپسند ہے۔
نبی اکرمؐ کی نبوی ذمہ داریوں اور خصوصیات میں سے ایک بات قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ آپؐ اپنی قوم کے بوجھوں کو اُتار دیں گے اور ان کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دِلائیں گے۔ (الاعراف: 157) یعنی جن مفادپرست اور دھوکے باز حکمرانوں نے ایسے معاہدات کرلیے کہ جس سے قوم معاشی، سیاسی، سماجی غلامی میں مبتلا ہوگئی تو نبیؐ کے اہم مقاصد ِنبوت میں سے یہ مقصد بھی تھا کہ وہ ان کو اس غلامی اور محتاجی سے نکالیں۔ ظاہر ہے سیرتِ طیبہ کا یہ پہلو ہمیشہ کے لیے ہے۔ دینِ اسلام کی یہ امتیازی شان ہے کہ وہ انسانوں کو ظلم و ستم اور حق تلفی سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ دین اختیار کرنے کا مطلب دوسروں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی غلامی قبول کرکے بااَخلاق بننا ہے، جس کا نتیجہ مخلوقِ خدا کے حقوق ادا کرنا اور ان کی مدد و نصرت کرنا ہے۔
لہٰذا جو حاکم عوام کے ان مسائل سے روگردانی کرے، ان پہ ظلم کرے، غیرذمہ دار اور دھوکے باز ہو تو اس کا یہ عمل بُرے اعمال میں سب سے زیادہ بُرا عمل ہے۔ ایسے حکمرانوں کے اعمال کا بدلہ دیوار پہ لکھا ہوا ہے۔ روز ِقیامت اس کی یہ غداری دھوکے بازی سب سے بڑی دھوکہ دہی قرار پائے گی۔ اس کے برعکس قوم کو مسائل کی گرداب سے نکالنا، ان کے حقوق محفوظ کرنا‘ اللہ کے نزدیک بہت محبوب عمل ہے کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عزت اور ترقی دیتے ہیں اور آخرت میں بھی جنت عطا کردیں گے۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔