کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ملکی سطح پر فرق صرف کرنسی کا ہوتا ہے، جہاں دیگر ممالک کا زرِ مبادلہ دراصل ملکی قوتِ خرید کا تعین کرتا ہے۔ پاکستان میں ڈالر اور دیگر ممالک کا زرِ مبادلہ چار طریقوں سے آتا ہے، جن میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر، ملکی برآمدات، بیرونی سرمایہ کاری اور ضرورت پڑنے پر عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک سے قرض۔ اور یہ زرِ مبادلہ کہاں خرچ کیا جاتا ہے؟ ان مدّات میں ملکی درآمدات، ملٹی نیشنل سرمایہ کاروں کے منافع کی واپسی اور عالمی مالیاتی اداروں سے وصول شدہ قرض اور اس پر سود کی واپسی۔ گویا زرِ مبادلہ کمانے کے اوّلین دو ذرائع یعنی برآمدات اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر دراصل ایسی آمدنی ہے جو بنیادی طور پر خود مختاری پر مبنی قرار پاتی ہے۔ کیوں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کو منافع سمیت بالآخر واپس جانا ہوتا ہے۔ اس لیے آزادی اور خودمختاری کی خواہش رکھنے والی قوموں کو اپنی برآمدات اور دیگر ممالک میں بسنے والے شہریوں پر زیادہ انحصار کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان کی درآمدات زیادہ تر اُن اشیا پر مشتمل ہیں، جن کی ڈیمانڈ مستقل یا غیر لچک دار (Inelastic) ہے، ان میں ایندھن اور خوراک سے متعلق درآمدات ایسی ہیں جن میں ایک تواتر کے ساتھ اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ بیس سال کا ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ ایندھن کی درآمدات کُل درآمدات کے 18 فی صد سے بڑھ کر 35 فی صد تک آن پہنچا ہے۔ اس کی بڑی وجہ عالمی مارکیٹ میں ایندھن کی قیمت میں اضافہ اور پاکستانی معیشت میں بڑھوتری ہے۔ جب کہ خوراک سے متعلق درآمدات ایک مستقل رُجحان کے تحت بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ چناں چہ بیس سال قبل یہ کل درآمدات کے 9 فی صد سے بڑھ کر اب 16 فی صد تک آن پہنچی ہیں۔ یہاں ایک وجہ بلاشبہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہے، لیکن یہ اضافہ محدود وقت کے لیے تھا، اب قیمتوں کا عالمی سُپر سائیکل مدھم ہوتا جا رہا ہے، لیکن ہماری خوراک سے متعلق درآمدات کم نہیں ہو رہیں۔ اس کی ایک اَور وَجہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے، جس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب ہماری خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کم پڑتی جارہی ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر ممالک سے قرض لینے کی رفتار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ صرف خوراک سے متعلق درآمدات کو نسبتاً بہتر منصوبہ بندی سے کم کیا جائے اور خودانحصاری کو اختیار کرلیا جائے تو ان درآمدات کو 16 فی صد سے کم کرکے 5 فی صد تک لایا جاسکتا ہے۔ گویا قریباً 7 ارب ڈالرکی بچت کی جاسکتی ہے، جو بالآخر قرض کی طلب کو بھی کم کرسکتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو پاکستان محنت اور لگن سے دو سال میں پایۂ تکمیل تک پہنچاسکتا ہے۔ ایسا ہو جائے تو ہمارا کام صرف پہلے سے لیا ہوا قرض اور اس پر سود کی ادائیگی ہوگا، جو بذاتِ خود ایک مشکل اور کٹھن کام ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ایک اَور دہائی لگ جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کون کرے گا؟
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…
کارپوریٹ فارمنگ کے ممکنہ اثرات
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادو…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…