والدین کی نافرمانی کی سزا

والدین کی نافرمانی کی سزا

عَنْ أُبَیِّ بْنِ مَالِک، عَنِ النَّبِیِّﷺ أَنّہٗ قَالَ: ’’مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ أَوْ أَحَدَھُمَا، ثُمَّ دَخَلَ النَّارَ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ، فَأَبْعَدَہُ اللَّہُ وَأَسْحَقَہُ‘‘۔ 
(حضرت اُبیٔ بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جس نے اپنے والدین یا کسی ایک کو اپنی زندگی میں پایا، اس کے باوجود وہ جہنم میں جاپڑے تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے بہت دور کردیا‘‘۔)  (مسند احمد، 18928) 


مندرجہ بالا حدیث میں نبی اکرمﷺ جہنم سے نجات اور رحمتِ خداوندی کے حصول کا ایک اہم ترین ذریعہ ماں باپ کی خدمت بیان فرما رہے ہیں۔ اس خدمت کے ذریعے سے انسان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا حاصل کرسکتا ہے۔ مؤمن کو والدین کا احترام کرنے اور اُن کے حقوق ادا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ان کو اگر کسی جسمانی خدمت اور سہارے کی ضرورت ہے تو وہ بروئے کار لائے۔ مالی ضرورت کا لحاظ رکھے۔ ہر وہ کام کرے جو اُن کی راحت، سکون، خوشی اور آسانی کا باعث بنے۔ 
دنیا میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد انسان پر سب سے زیادہ احسان ماں باپ کا ہوتا ہے۔ ماں باپ کی خدمت کا حکم دینے کی ایک حکمت یہ ہے کہ انسان کی عادت    احسان مندی کی بنے۔ اگر کوئی شخص اپنے اوّلین محسنین کا خیال نہیں رکھتا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کے اَخلاق بہت بُرے ہیں۔ جب وہ اپنے محسنین کا بدلہ چُکانا بھی نہیں جانتا تو اس سے کسی اَور کے لیے قربانی دینے اور ایثار کرنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ گویا ماں باپ کی خدمت اور ان کے احترام سے روگردانی کرنے والا اپنے عمل سے اپنے اَخلاقی بگاڑ کی نشان دہی خود کررہا ہوتا ہے، جب کہ ماں باپ کا اپنی اولاد کے ساتھ معاملہ تادمِ زیست رحم والا ہوتا ہے۔ اس لیے والدین سے بداَخلاقی کا مرتکب کسی رحم کا مستحق نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہؐ نے فرمایا کہ روز ِقیامت اللہ تعالیٰ اس کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ (مسند احمد، نسائی) 
اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ دینِ اسلام انسانی رشتوں اور اپنے محسنین کا احترام سکھاتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی تربیت اور عمدہ اَخلاق کی پرورش کی بنیادیں گھر کے ماحول سے پیدا ہوتی ہیں۔ اسی سے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کے راستے کھلتے ہیں۔ جو اپنے گھر، قریبی رشتے داروں اور محسنین کا خیال رکھنے والا ہو، ایسے آدمی سے دیگر اچھے اور اعلیٰ اَخلاق کی بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ اسی بنا پہ قرآن حکیم اور احادیثِ نبویہؐ میں ’’ذوی القربیٰ‘‘ (رشتہ داروں) کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس سے انسان کے عمدہ اخلاق کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ عصرِ حاضر میں اس مضمون کی مثال یہ ہے کہ مغربی یورپ نے خاندانی نظام کو ختم کیا تو اس سے انسانی مزاجوں میں سفاکیت اور اَخلاقی گراوٹ نے جنم لیا۔
 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز

پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران  علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ  گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔  "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔