فاسد نظام کی آلۂ کار انتخابی سیاست کا بھیانک چہرہ:
الیکشن 2024ء
گزشتہ ماہ 8؍ فروری کو ملکی آئین سے منحرف نگران حکومت کے تحت ملک میں 2024ء کے عام انتخابات ہوئے۔ جس طرح ہوئے، سب جانتے ہیں۔ آج تک پاکستانی تاریخ کے انتخابات میں یہ سب سے زیادہ دھاندلی زدہ اور بدنام ترین انتخابات تھے۔ اس میں عوام کے ایک بڑے حصے نے جبر، طاقت اور آلۂ کار سیاست سے اپنے تئیں غصے اور نفرت کا کھل کر اظہار کیا اور نظام کی سرپرستی میں انتخابات لڑنے والے کئی ایک سیاست دانوں کو خوب دُھول چٹائی ہے۔ اس شکست کو نظام کے طاقت ور عنصر کی شکست تصور کیا جارہا ہے کہ وہ کرپٹ سیاست دانوں کی سرپرستی کرنے والا تصور ہوتا ہے اور پہلی بار پنجاب اور خیبرپختونخوا سے غیر معمولی تعداد میں طاقت کے استعمال کے خلاف عوام کی اکثریت کا اظہارِ رائے ہوا ہے، مگر اس نظام کی بُنت ہی ایسی ہے کہ اس میں عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ اس کے علی الرغم کام کرتا ہے۔
اس لیے یہاں کے نوجوانوں کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آلۂ کار نظریے پر استوار ملک کا سارا سیاسی نظام‘ ظلم و استبداد اور جبر کا نمائندہ نظام ہے۔ چناں چہ انھوں نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کرلیا ہے کہ وہ کس طرح راتوں رات فارم 45 کے مطابق الیکشن جیتنے والوں کو فارم 47 میں انجینئرنگ کرکے الیکشن ہرا دیتا ہے اور نتائج کا راستہ اپنے حق میں ہموار کرلیتا ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت سے جیتنے کے بجائے الیکشن کے نتائج کو پروردہ نام نہاد سیاسی جماعتوں میں ایسے تقسیم کردیتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی حسبِ خواہش بیساکھیوں پر کھڑی ایک کمزور اور مخلوط حکومت بنوائی جائے، جسے ہر طرح سے کنٹرول میں رکھ کر حسبِ منشا کام میں لایا جاسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان میں ایک بار پھر بیرونی اور اندرونی مخصوص قوتوں نے ایک ایسے جانب دارانہ غیر شفاف الیکشن کا اہتمام کیا ہے، جس کے نتائج سے سیاسی استحکام کے بجائے ہم ایک نئے غیر مستحکم اور بے یقینی کے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ اقتدار پر جھپٹنے والوں کے آگے ملک ایک بے جان لاشے کی طرح پڑا ہے۔ اس نام نہاد الیکشن کے بعد سیاسی گِدھ اس کو نوچنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب اس جانب دار اور غیر متوازن الیکشن نتائج کے بل پر اُردو محاورہ:
بھان مَتِی نے کُنْبَہ جوڑا، کَہِیں کی اِینٹ کَہِیں کا رَوڑا
کے مصداق سیاسی بھان متی کے کنبے کے ذریعے ایک ایسی حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی لگامیں نظام کے ہاتھ میں رہیں گی اور جسے جب جس طرف چاہے ہانک لیا جائے گا۔ ایسی حکومت عوام کا تو کوئی مسئلہ حل نہ کرسکے گی، البتہ اپنی تجوریاں بھرنے اور ظلم کا بازار گرم کرنے کے لیے وہ ہمیشہ کی طرح تاک میں ہے۔ سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کی طرف سے ٹی وی شوز میں کس ڈِھٹائی سے آزاد اُمیدواروں کو خریدنے کی باتیں کی جارہی ہیں، جب کہ انھیں اس الیکشن میں ’’آزاد ممبرانِ اسمبلی‘‘ بنانے کے لیے 1970ء کے الیکشن کی طرح بہت زیادہ انجینئرنگ کرنا پڑی، جو اُن کے جمہوری دعوؤں کی کھلی تردید ہے۔
موجودہ انتخابات‘ رائج مجرمانہ نظام کا 76 واں سالہ ثمر ہے کہ جس کی خرابی کو اب ایک عام آدمی بھی ایک حد تک محسوس کرنے لگا ہے۔ اس سے اس بات کو بہ آسانی باور کروایا جاسکتا ہے کہ کس طرح 1970ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ 160 سیٹوں کے باوجود اس نام نہاد جمہوریت میں اپنی حکومت نہ بنا سکی۔ تب بھی عوامی لیگ پر پابندی لگا کر اُس کے منتخب ممبرانِ اسمبلی کو ’’آزاد‘‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ اس طرح غیرملکی طاقتوں کے اشارے پر ملک توڑ کر ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو صرف 81 سیٹوں کے ساتھ پاکستان کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔
یہ نظام در حقیقت انگریز کے عہدِ غلامی کا تسلسل ہے۔ عہدِ غلامی کی نوآبادیاتی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر موجودہ دور کے جدید نو آبادیاتی نظام کی عادات و اطوار ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ اس کی نفسیات ہمیشہ سے جبر، آمریت، دَھونس، دھاندلی اور معاشی و سیاسی قتل و غارت گری کی رہی ہیں، جو آج اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ عروج پر ہیں۔ نظام پر قابض طاقت کے مراکز آج دنیا کو کس طرح باور کروا سکتے ہیں کہ انڈیا کشمیریوں کے حق رائے دہی کو نہیں مانتا۔ کیا پاکستانی نظام کی حقیقی مقتدرہ اپنی حدود میں اپنی رعایا کے حق رائے دہی کو ماننے کے لیے تیار ہے؟
اس حقیقت کا آج مقتدرہ کو جلد ادراک کرلینا چاہیے کہ نظام کے مردہ سیاسی وجود کو دَھونس اور دھاندلی کی طاقت کے انجکشن سے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ نتائج بدلنے سے حقیقت نہیں بدلی جا سکتی، مگر یہ ایک المیہ ہے کہ حالات پر کنٹرول رکھنے والی قوتیں ہمیشہ طاقت کے نشے میں شعور کی بینائی سے محروم ہوجایا کرتی ہیں۔ اس الیکشن کے پراسیس کے حق میں رائے رکھنے والے عناصر سے آج کے نوجوان کو پوچھنا ہوگا کہ انھیں الیکشن پر اعتماد کرکے کیا ملا؟ اور ابھی ان کے مینڈیٹ کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے؟ اور یہ سوال حقیقت پر مبنی ہے کہ جب ہم جمہوری اصولوں پر حقیقی جمہوریت قائم نہیں کرسکتے تو ہمیں اربوں روپے کے اخراجات کے زیر بار ہوکر انتخابات کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم جمہوریت کے نام پر آلۂ کار ادارے کیوں بناتے ہیں؟ اور پھر دنیا بھر میں اپنا مذاق بنواتے ہیں۔
اس سارے کھیل میں نظام کے ساتھ مل کر نام نہاد سیاسی ومذہبی جماعتوں کاجبر و تشدد، آمریت، دَھونس اور دھاندلی کا ہنسی خوشی حصہ بن جانا کوئی تعجب کی بات نہیں، کیوں کہ یہ جماعتیں اور سیاست دان اسی نظام کی پیادے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت جاننا کوئی مشکل امر نہیں کہ یہ سیاسی جماعتیں نہیں، بلکہ مافیاز ہیں، جو نظام کی ملی بھگت سے عوام کی آنکھوں میں دُھول جھونکتی ہیں۔
آج کل 1973ء کے آئین کے تناظر کی شہرت رکھنے والی نیم سیاسی مذہبی شخصیت اور اسی نظام کی چھتر چھاؤں کے نیچے پرورش پانے والی دیگر کئی سیاسی شخصیات کے دھاندلی پر انکشافات اور ٹسوے بہانے کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اُس پارٹی کے حق میں دھاندلی کی جائے وہ دھاندلی نہیں کہلاتی اوراگر انھیں دھاندلی میں حصہ نہ ملے تو وہ اپنا مول بڑھانے کے لیے در پردہ رازوں سے پردے سِرکانے شروع کر دیتی ہیں، حال آں کہ وہ خود سائفر سازش کے تحت رجیم چینج کے عمل کا نمایاں حصہ تھے۔ ا س کا مطلب ہے کہ اگر مفادپورا ہو جائے تو جھوٹ بھی سچ ہے۔ بس ملک کی سیاسی جماعتوں کی یہی وہ حقیقت ہے جس کے لیے آج کے نوجوانوں پر اس عیار نظام کے حربوں کو سمجھنا اور سمجھانا واجب ٹھہرتا ہے۔ کیوں کہ ع
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ کے اُلجھائی ہے
اس الیکشن پروسیس سے مزید کوئی اُمید لگانا‘ اس نظام سے مزید دھوکہ کھانے کے مترادف ہے۔ اس نے اپنے سے اُمید رکھنے والوں کو مزید تھکانے کا پورا بندوبست کیا ہوا ہے کہ ابھی جیتنے والی جماعت کے اُمیدواروں نے الیکشن ٹریبونلز اور پھر عالیہ اور عظمیٰ کی در در کی ٹھوکریں کھانی ہیں کہ اس ملک میں ان کے فیصلوں اور حربوں کی تباہ کاریوں کی تاریخ باشعور سیاسی سوچ رکھنے والے افراد سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…