​حقائق سے عاری نعروں اور بے عمل جذباتی بیانیوں کی سیاست

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
مئی 10, 2025 - شذرات
​حقائق سے عاری نعروں اور بے عمل جذباتی بیانیوں کی سیاست

’پاکستان تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے‘، ’ملک ایک تشویش ناک دور سے گزر رہا ہے‘!!! یہ جملے ایک بار آج پھر ہماری سیاست اور صحافت کی شہ سرخیوں کی شکل میں اخبارات اور چینلز کی زینت بن رہے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت سے قطعاً انکار نہیں کہ اس وقت سیاسی طور پر ملک میں عدمِ استحکام کی فضا غالب ہے۔ سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور علاقائی سلامتی کے خطرات نے دفاعی اداروں کے لیے فکرمندی کی فضا کو جنم دیا ہے۔ قومی اُفق پر آزمائشوں کے سائے گہرے ہو تے چلے جارہے ہیں۔ پاکستان کو ہندستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا سامنا ہے۔ خاص طور پر پہلگام واقعے کے بعد پڑوسی ملک کے الزامات اور فوجی کاروائی کی دھمکیوں نے حالات کو تشویش ناک حد تک خراب کردیا ہے، جس کی وجہ سے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان تناؤ بڑھ چکا ہے۔

ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ پاکستان اور ہندستان کے تعلقات‘ تاریخی طور پر پیچیدہ اور متنازعہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک کی تقسیم کے وقت 1947ء میں شروع ہونے والے اختلافات نے جلد ہی کشیدگی کی شکل اختیار کر لی، جس کی وجہ سے تین بڑی جنگیں اور کئی سرحدی تنازعات ہماری جنگی تاریخ کا حصہ ہیں۔

لیکن پھر بھی ہمیں مندرجہ بالا جملے کیوں رسمی اور کسی تاثیر سے خالی نظر آتے ہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے ملک کی حکومتوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیاں اورسیاسی و مذہبی جماعتوں کی بچگانہ اور شعور سے عاری حرکتیں ہیں۔ ہمارے خیال میں ان حکمرانوں اور سیاسی ومذہبی قبیلوں کے من پسند حالات یہی ہیں جو آج کل ملک میں انھوں نے پیدا کر رکھے ہیں۔ گو ! یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اس کے کہے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ حالات جان بوجھ کر حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں، تاکہ ان پر سیاست کی جاسکے اور پھر دوسروں کو اس پر موردِ الزام ٹھہرایا جاسکے۔ گویا خرابیٔ بسیار کے لیے خود خراب حالات کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے، تاکہ؎

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

کیوں کہ ان خراب حالات میں ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کچھ ایسے نعرے اور سلوگن ہاتھ لگ جاتے ہیں، جس سے ان کے لیے جلسوں، ریلیوں اور چندوں کی راہ ہموار ہو جاتی ہے اور گلشن کا کاروبار چل نکلتا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنی عوام کو جذباتی بنا کر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پاکستانی سیاست میں کچھ ایشوز خطیبوں کی تقریروں میں رنگ بھرنے اور عوام کے دلوں کو گرمانے میں خاص تاثیر رکھتے ہیں۔ آج کل کی فضا میں ایک بار پھر وہ سارے سلوگن ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں اور وہ نعروں اور ایشوز کے ذریعے سیاست میں اپنے اپنے ’’گلشن‘‘ کا کاروبار چلاتے نظر آتے ہیں۔

اس موقع پر ایک سنجیدہ ذہن کو یہ سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ پاکستان میں سیاست اور حکومت کے بنیادی ڈھانچے پر غور و فکر کر کے یہ حقیقت دریافت کرے کہ ہمارے ہاں سول وفوجی حکومتوں اور سیاسی ومذہبی جماعتوں کا سیاسی آہنگ اور ہتھیار کیا رہا ہے؟ ہم جگہ کی کمی کے باعث ذیل میں نظام کے ان تینوں کوزہ گروں میں سے صرف ایک عنصر یعنی مذہبی جماعتوں کی اس موقع پرستی یا ’’نبض شناسی‘‘ کا جائزہ لیں گے کہ وہ قوم کو کس وقت کیا بیچتا رہا ہے؟

قیامِ پاکستان کی کوششوں سے لے کر قراردادِ مقاصد اور بعد ازاں 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کروانے تک مذہبی جماعتیں اکثر یہ تأثر دیتی رہی ہیں کہ اسلام کو اندرونی اور بیرونی قوتوں سے خطرات لاحق ہیں، حال آں کہ وہ نظام سے جڑی اندرونی قوتوں کے ساتھ مل کر سیاست کاری کے فن میں یدِ طولیٰ کے دعوے دار بھی ہیں۔ وہ مذہبی اقدار کے تحفظ اور اسلامی نظام کے نفاذ اور بعض دیگر مذہبی ایشوز کے نام پر لوگوں کو متحرک کرتے ہیں اور ان جذباتی ایشوز سے بہ آ سانی عوام کو اپنی طرف راغب کرلیا جاتا ہے۔ یہ ایشوز اکثر‘ حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈے پر مبنی ہوتے ہیں۔ مذہبی سیاست دان اور مذہبی جماعتیں جذبات کو بھڑکانے کے لیے غیر مصدقہ واقعات کو ہوا دیتی ہیں۔ فلسطین اور کشمیر، پہلے افغانستان بھی ان میں شامل تھا، جیسے مسائل جذباتی مرچ مصالحے کے ساتھ مسلم امہ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے پیش کیے جاتے ہیں اور مقامی مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، جیسے آج کل فلسطین کے نہتے عوام کے زخموں پر اپنی سیاسی عمارت کھڑی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں تمام مذہبی جماعتوں کا مینارِ پاکستان پر متحدہ کنونشن اور اس میں ہونے والی شعور سے عاری جذباتی تقریریں اور بیانات نمونے کے طور پر سامنے رہیں، جس میں کوئی فلسطین کے محاذ پر جانے کے لیے بے تاب ہے اور کوئی دلی کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا دم بھرتا ہے اور کوئی ہندوستان کے شہر دیوبند میں ناشتے کی خواہش لیے پیٹ پر ہاتھ پھیر رہا ہے۔

اور کبھی کبھی مذہبی سیاست میں مغربی ثقافت کے خلاف بیانیے کو اسلامی ہوا دی جاتی ہے، حال آں کہ بیش تر اِن مذہبی سیاست کے رہنماؤں کی اولادیں مغربی ثقافت کے زیرِ سایہ پھل پھول رہی ہوتی ہیں اور مغرب کے مسلط سرمایہ داری نظام میں محض مغربی ثقافت کے خلاف نعرہ‘ لوگوں کو فریب دینے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

ہماری سیاست میں یہ ایشوز وقت اور حالات کے ساتھ نئی شکل اختیار کر تے رہتے ہیں، جیسا کہ ہماری قومی سیاست پر 1950ء کی دہائی میں لسانی ایشوز غالب تھے۔ 1980ء کی دہائی میں مذہبی شدت پسندی اور آج کل سوشل میڈیا پر دھاندلی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیوں کے ساتھ ساتھ غزہ اور فلسطین کاز اور جنگی جنون کا غلبہ ہے۔

ہماری مجموعی سیاست میں مذکورہ بالا طبقوں کے کردار کے باعث اس طرح کے مسائل‘ پاکستان کی سیاست کی گاڑی چلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، اور ہر ایک گروپ نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کا فائدہ اٹھایا ہے۔

کسی اَور موقع پر سول اور فوجی حکومتوں اور سیاست دانوں کے کردار پر بھی تفصیل سے بات کرنے کی کوشش کی جائے گی، تا ہم مذہبی جماعتوں نے مذہبی حساسیت کو سیاسی طاقت میں بدلنے کی دانستہ کوشش کی، جس میں عوامی جذبات کو ابھار کر مذہبی شناخت کے تحفظ کا بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ اس عمل نے فرقہ واریت کو فروغ دیا، سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا، اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی گئی۔

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

افتتاحی تقریب ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور، پشاور کیمپس

اِدارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کا 2001ء سے شروع ہونے والا سفر کراچی، سکھر، صادق آباد، ملتان اور راولپنڈی کی منزلیں طے کرتا ہوا پشاور آ پہنچا ہے! الحمدللہ علیٰ ذالک…

انیس احمد سجاد نومبر 14, 2022

ترقی یافتہ سرمایہ دار

گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی وزیراعظم نے آمدہ سال کو ترقی کا سال قرار دیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ صنعتی پیداوار، بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ بتایا جارہا ہے۔ ا…

محمد کاشف شریف فروری 17, 2021

ابو عمارہ، سیّدِ شہدا ء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ

ابو عمارہ، سیّدِ شہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہٗ مہاجرینِ اوّلین میں سے ہیں۔ آپؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا، رضاعی بھائی اور آپؐ سے صرف دو سال بڑے تھے، گویا آپؐ کے ہم عمر تھے۔ حضرت ح…

مولانا قاضی محمد یوسف نومبر 12, 2023

شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری

رحیمیہ مطبوعات لاہور کی طرف سے شائقینِ علومِ ولی اللّٰہی کے لیے عظیم خوش خبری تصنیفاتِ حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیق و شرح کے ساتھ عمدہ اشاعت حضرت اقد…

ایڈمن اکتوبر 13, 2022