مشرقِ وسطی کاسلگتا مسئلۂ فلسطین

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
فروری 16, 2025 - عالمی
مشرقِ وسطی کاسلگتا مسئلۂ فلسطین

مشرقِ وسطی کاسلگتا مسئلۂ فلسطین

کشمکشِ حیات‘ کائنات کی روح ہے۔ مثبت اور منفی قوتوں کا ٹکراؤ، ارتقائی طریقۂ کار کے مطابق جاری رہتا ہے۔ ایک قوت حتی المقدور اپنے تغلُّب کو دوام بخشنے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ مدمقابل قوت‘ پہلی کے کوتاہی برتنے پر بروقت اقدام کرکے سبقت حاصل کرلیتی ہے۔ کائنات ایک مرکز سے جڑی ہوئی ہے، جو ایک خاص ترتیب کے مطابق اسے تبدیلیوں سے ہم کنار کرتا رہتا ہے۔ ان تبدیلوں کا مرکز و محور کائنات کا بنیادی ذرہ قرار دیا جاتا ہے۔ ذرے سے تشکیل کردہ ہر وجود اسی سے تحریک پکڑتا ہے۔ کائنات میں کسی مخلوق کو دوام حاصل نہیں ہے۔ ذرّے سے تشکیل پانے والی ہر شکل‘ ایک خاص عرصے تک قائم رہتی ہے۔ اس کے بعد تحلیل ہو نا شروع ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ کسی نئی شکل نے اس کی جگہ ضرور لینی ہوتی ہے۔ جس طرح ہر ذی روح نے موت کو چکھنا ہے، اسی طرح ہر مادی وجود نے اپنی ماہیت تبدیل کرنا ہوتی ہے۔ کائنات میں تبدیلی کا یہ عمل ہر لحظہ جاری و ساری ہے۔

پچھلے 75 سالوں میں قوت کے ایک مرکز نے اپنے غلبے کے عہد میں سماج کو سائنسی ترقیات سے ہم کنار کیا، لیکن ان کے لیے انسانیت کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ملکوں کے سماجی ڈھانچے کی تباہی اور انسانیت کا بہیمانہ قتلِ عام اس کے علاوہ تھا۔ ایسی طاقتوں کا مرکز‘ مشرقِ وسطیٰ کا ملک‘ اسرائیل تھا۔ اپنے سرپرستوں کی آشیر باد سے یہ مرکز‘ بلا شرکتِ غیرے دہشت گردی پھیلاتا رہا۔ کوئی اس کے راستے کا پتھر یا آہنی دیوار ثابت نہ ہوسکا۔ دنیا کی سامراجی طاقتوں کے زیرِ اثر جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باعث کسی کی بھی دسترس سے باہر تھا، جس کا بھرپور استعمال کرتا رہا۔ کائنات کی روح کے مطابق گروہی مفادات کی ایک حد ہوتی ہے، جس کے عبور کرنے پر ردِعمل آتا ہے۔ شروع میں انتہائی معمولی ہوتا ہے، پھر دھیرے دھیرے زور پکڑتا ہے، حتیٰ کہ بھونچال بن کر سامنے آتا ہے۔ سب کچھ تباہ و برباد کردیتا ہے۔

حد عبور کرنے کی عملی شکل اعلیٰ ٹیکنالوجی کا وجود میں آنا ہے۔ طاقت، طاقت ور سے شکست کھاتی ہے۔ مدِمقابل قوت محض جواب ہی نہیں دیتی، بلکہ بہتر ٹیکنالوجی اور بہترین حکمتِ عملی کا مظاہرہ بھی کرتی ہے۔ غلبے کی حامل قوت کو جب یقین ہو جاتا ہے کہ اب طاقت کا مقابلہ مروّجہ اسلحے کی مدد سے نہیں کیا جاسکتا،میدانِ جنگ کی نوعیت تبدیل کرنا شروع کردیتا ہے۔ دنیا کو تأثر دیا جا تا ہے کہ اب مسئلہ ہارجیت کا نہیں ، بلکہ ان انسانی جانوں کا ہے، جو گزشتہ عرصے میں بے دریغ طریقے سے قتل کی جار ہی ہیں ۔ بازی پلٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایسی حکمتِ عملی اختیار کی ہے، جس سے نہ صرف شکست سے بچاؤ ممکن ہو، بلکہ فاتح کی حیثیت بھی برقرار رہے۔

چناں چہ اسی حکمتِ عملی کے تحت قطر کے دارلحکومت دوحہ میں کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ 15؍ جنوری 2025ء کو طے پاگیا، جس کے تحت یرغمالوں کی رہائی پر اتفاق ہوگیا۔ معاہدے کے نمایاں پہلوں درجِ ذیل سامنے آئے ہیں :

o            معاہدے پر عمل درآمد 19؍ جنوری 2025ء بروز اتوار سے شروع ہوگا۔

o            معاہدے کے تحت ابتدائی طور پر لڑائی میں چھ ہفتے کا وقت ہوگا۔

o            عرصۂ جنگ بندی کے دوران مکمل جنگ کے خاتمے پر مذاکرات کیے جائیں گے۔

o            مقررہ کردہ چھ ہفتوں کے دوران تقریباً ایک سو 100 یرغمالوں میں سے 33 رہا کیے جائیں گے۔

o            اسرائیل‘ فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔

o            امریکا، مصر اور قطر نے مذاکرات کی کئی ماہ تک ثالثی کے فرائض سرانجام دیے۔

 غزہ میں جاری تباہ کن جنگ عارضی طور پر آخرکار خاتمے کو پہنچ گئی۔ 7؍ اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس کے حملوں میں یرغمال بنائے گے افراد رہا ہوجائیں گے۔ امریکا کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن قانون سازوں نے بد ھ 14؍ جنوری 2025ء کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی _ جس کی سربراہی میں مذاکرات ہوئے _ نے بدھ کو اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیاں طے پانے والے معاہدے پرعمل درآمد 19؍ جنوری 2025ء سے شروع ہوگا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے معاہدے کی تفصیلات کی تصدیق کرنے کے علاوہ اس کی حتمی شکل کی بھی منطوری دے دی ہے۔

امریکا کے مدِمقابل اُبھرتی ہوئی طاقتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ کیوں کہ امریکی مقتدرہ نے دنیا میں ا پنی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے نیا اسٹیٹ ایکٹر میدان میں اُتارا ہے۔ ایشیا پیسفک قوتوں نے نئی دنیا کی تشکیل کا جو تصور متعارف کروایا تھا، امریکا اپنی عالمی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور ہوگیا۔ سرمایہ دار کی اصل طاقت سرمایہ ہے، جس کی آج شکل‘ ڈالر ہے۔ عالمی تجارت‘ ڈالر کے بغیر امریکی سرمایہ کی موت کے مترادف ہے۔ روس نے اسے حریف ریاست کا ہی درجہ دیا ہے۔ درجہ بندی کے اعتبار سے روس امریکا تعلقات انتہائی پست سطح پر ہیں ۔ یوکرین جنگ بھی وقتی طور پر ماند پڑگئی ہے، البتہ پائیدار امریکی اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد تعلقات کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ چین نے مستقبل میں ساتھ مل کر کام کرنے کے سابقہ عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ٹرمپ نے چین کے دورے کا بھی عندیہ دیا ہے، البتہ فلسطینی ریاست کے سربراہ محمود عباس نے دو رِیاستی حل کے تصور کی توقع کی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے سلگتے ہوئے دیرینہ مسئلے کی شدت کو جنگ بندی کے ذریعے ٹھندا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے اسٹیٹ ایکٹر کے ذریعے امریکا اپنی عالمی ساکھ کو بچانے کی کوشش کرے گا۔پون صدی سے خون آلودہ اور داغ دار مریکی چہرے کو کاسمیٹک سرجری کے ذریعے خوش نما بنانے کی ایک کوشش ہے۔

صدیوں کے کردار سے واضح ہونے والے چہرے‘ لمحوں میں تبدیل نہیں ہوتے۔ تبدیلی،بنیادی کردار کے بدلنے سے آتی ہے۔ چہرے بدلنے سے محض مفادات کے حاملین تبدیل ہوتے ہیں ۔ لہٰذا عالمی امن، معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف کا قیام‘ بنیادی سوچ کی تبدیلی کے بغیر ناممکن ہے۔ جس کا اپنا طے شدہ انسان دوست فکر و فلسفہ اور ایک خاص طریقۂ کار ہے۔

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔