آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز میں روکے رکھنا اور تجارتی خسارے میں مصنوعی انتخاب کی بنیاد پر کمی‘ دراصل معیشت کو ایک نئے تباہ کن بحران کی جانب دھکیل رہا ہے۔ درآمدات کو 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ رکھنے کی جستجو ہے، جس کی وجہ سے ہر قسم کی درآمدات میں ڈالر کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی اور ہوتا یوں ہے کہ طاقت ور ادارے، حکمران اور ان سے متعلق تاجر وغیرہ دراصل نسبتاً سستے ڈالر کی ادائیگی کرکے درآمدات کر رہے ہیں اور ہمیشہ کی طرح قوم ان کی اس کاوش میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔
ہمارے تجربے میں یہ پہلے بھی آچکا ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں ڈالر کو مصنوعی طور پر 60 روپے کے لگ بھگ رکھا گیا۔ اس ارادے کے پیچھے کچھ دِکھاوا تھا اور کچھ مقامی تاجروں کے لیے سہولت کی سوچ، جسے مضبوط تجارتی سرگرمیوں، بیرونی قرضوں اور سب سے اہم مسلسل امریکی امداد نے سہارا دیا۔ لیکن 2008ء میں ہماری ملکی معیشت کی سب سے بڑی بیماری یعنی جاری کھاتوں کا خسارا (Current Account Deficit) کُل قومی پیداوار کے 8.2 فی صد کی ریکارڈ حد تک بڑھ چکا تھا۔ زرداری دور میں روپے کو خوب گرایا گیا اورتجارتی خسارے میں کمی اور بے پناہ قرضوں کی مدد سے اس بیماری کو قدرے کنٹرول کرلیا گیا۔ 2012ء میں یہی خسارا کم ہو کر کُل قومی پیداوار کے 2.1 فی صد تک آن پہنچا۔
نواز شریف دور میں اس خسارے کو قابو کرنے کے لیے بے پناہ قرضے لیے گئے اور تجارت پر توجہ دیے بغیر مصنوعی طور پر ڈالر کو 100 روپے کے آس پاس رکھا گیا۔ نتیجتاً 2018ء میںیہ خسارا بڑھ کر کُل قومی پیداوار کا6.1 فی صد تک جا پہنچا۔ یوں عمران خان دور کے آغاز میں تاریخ کا بلند ترین خسارا ہماری عالمی تجارت پر سوار تھا۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا۔ درآمدات کو امپورٹ ڈیوٹیاں بڑھا کر کم کیا گیا۔ کچھ سنجیدہ کوششیں برآمدات کو بڑھانے کے حوالے سے کی گئیں۔ تاریخ کا ریکارڈ قرض لیا گیا اور روپے کو خوب گرایا گیا۔ حالات بہتر ہوئے، لیکن 2022ء کے اختتام تک یہی خسارا بڑھ کر کُل قومی پیداوار کا 4.6 فی صدہو گیا۔ ایسے میں شہباز دور کا آغاز ہوتا ہے اور اس خسارے کو کم کرنے کے لیے روپے کو خوب گرایا گیا اور درآمدات کو روکا جارہا ہے۔ تاریخی قرض لیے جاچکے ہیں اور عظیم گراوٹ کے بعد روپے کو مصنوعی طور پر روکا جارہا ہے۔ قوم پر بے پناہ مہنگائی اور ٹیکسز کا بار منتقل کیا جاچکا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ بیس سالوں سے معیشت ایک ہی ذہن سے چلائی جارہی ہے۔
ان کے پاس کوئی اَور حل نہیں ہے، بس منہ کالا کرنے کے لیے شوکت عزیز، حفیظ شیخ، شوکت ترین، مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار جیسے ٹیکنوکریٹس رکھے ہوئے ہیں، جو اَدل بدل کر آتے ہیں اور وہی کارروائی دُہرا کر آگے بڑھتے ہیں۔ قومی معیشت پر میرے حالیہ کالمز کے بعد قارئین کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے حوالے سے پوچھا گیا۔ اس حوالے سے جون اور جولائی 2022ء کے کالمز کا مطالعہ کرلیا جائے، لیکن مجوزہ حل جُزوقتی ہے۔ ہمہ جہتی حل تبدیلیٔ نظام میں ہی مضمر ہے، جتنی جلد ہوجائے۔اس کے لیے قوم کا تیار ہونا ضروری ہے۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
یہ سب کون کرے گا؟
کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے …
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…
ایران پاکستان معاشی تعلقات
دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور ا…
کارپوریٹ فارمنگ کے ممکنہ اثرات
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادو…