سندھ کی عظیم دھرتی پر موجود کراچی شہر کی تاریخ سندھ کی تاریخ کی طرح ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ مچھیروں کی یہ ایک چھوٹی سی بستی آج دنیا کا بین الاقوامی شہر بن چکا ہے۔ اس حقیقت سے نئی نسل کے بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ سندھ پر انگریزوں کے قبضے سے قبل یہ دھرتی برعظیم پاک و ہند کی بڑی زرخیز دھرتی تھی۔ انگریزوں نے سندھ کے مجاہدینِ آزادی کی سرفروشانہ جدوجہد کے باوجود جب سندھ پر قبضہ کرلیا تو ان کی نظریں سندھ کے اس شہر کے محلِ وقوع کی اہمیت کے باعث اس پر جم گئیں۔ ہندوستان میں بیٹھا انگریز جب سندھ پر قبضے کے منصوبے بنارہا تھا تو وہ ساحلِ سمندر پر واقع اس شہر کی بندرگاہ کو بمبئی، سورت اور کلکتہ کی بندرگاہوں جیسی ہی اہمیت دے رہا تھا۔
چناںچہ کراچی پر قبضہ کرتے ہوئے جنرل نیپیئر نے کہا تھا: ’’ہمیں سندھ پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، مگر ہم ایسا ضرور کریں گے اور یہ ایک بے حد سود مند، کارآمد اور درمندانہ بدمعاشی ہوگی۔‘‘ اسی طرح ایک اَور انگریزافسر نے کہا تھا کہ: ’’ہمیں سندھ میں مستقبل کے لیے ہر کام کرنا چاہیے، تاکہ ایک اَور ’’مصر‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔‘‘
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ میں اُبھرنے والی تحریکاتِ آزادی کا ایک اہم مرکز کراچی بھی رہا ہے۔ چناںچہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں رام دین پانڈے اور اس کے ساتھیوں کو اسی پاداش میں پھانسی دے کر مشہورِ زمانہ ایمپریس مارکیٹ کی جگہ ان کو ایک گڑھے میں دفنایا گیا، جو بعد ازاں آزادی کے متوالوں کے لیے ایک عقیدت کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے لگا تو اس جگہ اس مارکیٹ کی عمارت کھڑی کرکے لوگوں کی نظروں سے آزادی کے ان نشانات کو اوجھل کردیا گیا۔
کراچی آئے دن گوناگوں مسائل کا شکار رہتا ہے۔ سندھ کی عظیم دھرتی کا یہ شہر کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ وہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ یہ شہر 25 ملین سے زائد آبادی رکھتا ہے۔ یہ 18 ٹاؤنز اور سات اَضلاع پر مشتمل ہے۔ پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں کا بنیادی حب (hub) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پورے ملک کا 44 فی صد ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ اس کا تہذیبی تنوع پاکستان ہی نہیں، بلکہ برعظیم کی بہت سی ثقافتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسی تنوع کے سبب اسے ’’منی پاکستان‘‘ (mini Pakistan) بھی کہا جاتا ہے۔
ملک کا سب سے بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز ہونے کے سبب اس کے مسائل صرف اہلِ کراچی تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات مجموعی ملکی ترقی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں کے باسی روزگار، امن وامان، رہائشی سہولتوں، بجلی پانی گیس سمیت اَن گنت مسائل کے شکار رہے ہیں، لیکن جس مسئلے نے ان کی زندگی کے سکون کو چھین لیا ہے، وہ گزشتہ دنوں بارشوں کے سبب شہر بھر میں بھر جانے والا پانی تھا، جو طونانِ نوح کا نقشہ پیش کررہا تھا، جس کی وجہ سے وہاں کی سڑکیں ندی نالوں کی صورت اختیار کرگئیں۔ مکانات میں پانی بھرنے کی وجہ سے لوگ اپنے ہی شہر میں بیگانے ہوکر رہ گئے۔
یہ بات سوچنے والی ہے کہ آخر سندھ جیسی عظیم اور قدیم تہذیب سے جڑے اس شہر کو اُجاڑنے کے درپے قوتیں کون ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں؟ کراچی کے حالیہ مسائل ہوں یا ماضی میں عذابِ جان بننے والے المیے، ان کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو اسے نوآبادیاتی (neo colonial) عہدکے مصر کی طرح دیکھتی رہی ہیں۔ انھوں نے سندھ کے ترقی پسند سامراج دشمن مجاہدینِ آزادی کو ناکام کرکے کراچی کو اپنے کنٹرول میں رکھا تھا۔ وہ یہاں سے پاکستان کے تمام صوبوں کو کنٹرول کرنا اور خطے کے دیگر اہم ممالک کے مقابلے میں اپنی سٹریٹجک پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے تھے، تاکہ مستقبل کی تجارت اور جنگوں کی حکمتِ عملی ان کے ہاتھ میں رہے۔ اسی لیے انھوں نے اس شہر کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے یہاں ترقیات کا آغاز کیا تھا۔
مزید برآں اس شہر کو قیامِ پاکستان کے بعد دارالحکومت بنایا گیا اور ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے طبقوں کو بھی تحفظات کاشکار بنا کر مستقبل کے منظر نامے کے لیے تیار کیا گیا۔ تقسیم کے بعد شاید ہی پاکستان کے کسی شہر کی ایسی مثال ملتی ہو، جو ایک دفعہ یکا یک خالی ہوگیا ہو اور پھر لبالب بھر جائے۔ پاکستان بننے کے بعد مسلط کی گئی بیوروکریسی کی تربیت انگریز نے کی تھی۔ اسی لیے انھوں نے پاکستان کے مستقبل کے نقشوں میں سارا رنگ اپنے منصوبوں کے تحت بھرا۔ اس نئے بننے والے نظام میں نہ صرف یہاں سندھ کے مقامی قومی سوچ رکھنے والے طبقوں کو نظر انداز کرکے اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لایا گیا، بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا۔
پھر اس شہرکی صوبہ سندھ کے ساتھ ہم آہنگی ختم کرنے اور ان کے ساتھ تضادات پیدا کرنے کے لیے بین الاقوامی قوتوں کی آشیرباد سے مقامی اسٹیبلشمنٹ آئے روز یہاں نت نئی قوتوں کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ پہلے پہل یہاں سندھی تہذیب کی شناخت رواداری اور انسان دوستی کے علیٰ الرغم نام نہاد ایک اسلامی جماعت کو مقبولیت دلائی گئی۔ جس کا یہ دعویٰ تھا کہ اگر وہ کھمبے کو بھی کھڑا کردیں تو وہ بھی الیکشن میں جیت جائے۔ اس کے ذریعے نام نہاد ’’افغان جہاد‘‘ کے لیے مذہبی جذبات سے لبریز نوجوانوں کی صورت میں ’’ایندھن‘‘ فراہم کیا گیا۔ رجعت پسند مذہبی طبقوں کے ذریعے مدارس کا جال پھیلایا گیا، جنھیں بعد ازاں جہادی سرگرمیوں میں استعمال کیا گیا۔ پھر اسی عنصر کو شیعہ و سنی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں مسلح طور پر استعمال کرکے شہر کے امن کو خراب کیا گیا۔ کراچی پر شدت پسند طبقوں کی گرفت نے نہ صرف سندھ امن کی دھرتی کو خطرے سے دوچار کیا، بلکہ کراچی شہر سے اس طبقے کو فنڈنگ کی شکل میں ملنے والی آکسیجن نے پورے جنوبی ایشیا میں سامراج کی بساط بچھائی۔
کراچی کے مسائل ہوں کے پیچھے بھی وہی وجہ کار فرما ہے، جو پورے پاکستان میں موجود مسائل کی وجہ ہے۔ وہ ہے ہمارے حکمرانوں کی وہ روایتی بددیانتی اور نااہلی، جس کے سبب وہ کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ماشاء اللہ سے اس میں ملک کی ساری مقتدر قوتیں شامل ہیں، خواہ وہ کسی بھی ڈھانچے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہمارے ملکی نظام کی مشترکہ اَساسی خرابی یہی نااہلی اور بددیانتی ہے، جس میں یہ ایک دوسرے کے لیے نہلے پہ دہلا ثابت ہوتے ہیں۔ قومی وجود پر جونکوں کی طرح چمٹا ہوا یہ طبقہ نہ صرف اپنی گرہ سے قوم پر کچھ خرچ کرنے کے انسانی جذبے سے محروم ہے، بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے معصوم بچوں اور بیماروں کے لیے چیریٹی کے نام پر آنے والے فنڈز کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے میں بھی لمبے ہاتھ مارتا ہے۔ ان نا اہل اور بددیانت حکمران طبقوں کے سبب ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ترقی کی کسی شاہراہ کا انتخاب نہیں کرسکے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ملکوں کے طور پر اُبھر رہے ہیں، لیکن ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ابھی تک آٹے اور چینی کے بحرانوں سے ہی نہیں نکل پائے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خطے میں نوآبادیاتی دور کی بچھائی گئی بساط کو سمجھ کر مستقل اور پائیدار بنیادوں پر اپنے مسائل کو مقامی اور قومی ترجیحات کی بنیاد پر مسائل کو حل کرنے کا شعور حاصل کریں، تاکہ ہم خطے کو حقیقی آزادی اور ایک خود مختار قومی نظام سے ہم کنار کرسکیں۔
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔