2024ء کے دھاندلی شدہ الیکشن کے نتیجے میں جوڑ توڑ کی صورت قائم شدہ حکومت ویسے تو کسی بھی شعبے میں کچھ کرنے کے لائق نہیں، لیکن معاشی شعبے میں اس حکومت سے عوامی مایوسی آسمان کو چھونے لگی ہے۔معاشی شعبے میں عوامی فلاح وبہبود کا کوئی منصوبہ اس حکومت کے ہاں کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا، البتہ قوم کو بھکاری بنانے کے لیے بے تُکے اشتہارات ہمارے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، جس میں سستی روٹی، قسطوں پر موٹر سائیکلوں اور لیپ ٹاپس کے علاوہ کیش بانٹنے کی نمائشی سکیمیں‘ پرائز بانڈز کے اشتہارات کی طرح سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔
حال آں کہ اگر بھکاریوں کو پیسے تقسیم کرنے کے بجائے لوگوں کو ضروریاتِ زندگی کے بہتر ریٹس اور روزگار کے ذریعے قوتِ خرید دی جائے، جس میں لوگ اپنی آمدن کے اندر رہ کر اپنی ضروریات کو اپنی کمائی ہوئی دولت سے باعزت طریقے سے خرید سکیں، جس میں ان کی عزت نفس اور اعتماد دونوں بحال رہیں، لیکن ہماری حکومتیں کوئی واضح معاشی ویژن نہ ہونے کے سبب ایک دوسرے کی نقل میں نقد کیش بانٹنے کی ایسی ایسی سکیمیں اناؤنس کرتی ہیں جس میں کرپٹ عناصر کھل کر کھیلتے ہیں اور قوم کے اربوں روپے ان سکیموں کی راہ میں ضائع کر دیے جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں نئی قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ویژن اور بصیرت سے محروم ترقی کے نام پر ایسے فضول منصوبوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیتی ہیں، جن میں سڑکیں، بائی پاس، انڈر پاسز اور سگنل فری کوریڈور وغیرہ بنائے جاتے ہیں، جو معاشی نقل و حرکت کے بجائے طاقت ور ٹھیکے داروں کو بھاری ٹھیکوں سے نوازنے کے لیے ہوتے ہیں، ان ترقیاتی فنڈز کا بیش تر حصہ ایم این اے ایز اور ایم پی اے ایز کی جانب سے پیش کردہ نام نہاد ’’ترقیاتی‘‘ اسکیموں پر خرچ کردیا جاتا ہے۔
یہ ترقیاتی رقم ایم این اے ایز اور ایم پی اے ایز کو دینے کا مقصد ترقی نہیں، بلکہ واضح طور پر سیاسی وفاداریاں خریدنا ہوتا ہے، حال آں کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کا بنیادی مقصدبہتر منصوبہ بندی سے عوامی ڈومینز میں پائیدار اور جامع ترقی کی سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے، جو اس نظام میں ایک خواب ہوکر رہ گیا ہے۔
ایک طرف تو حقیقی عوامی ترقی کے بجائے اپنے سیاسی پارٹنرز کو نوازنے کے لیے جعلی ترقیاتی سکیمیں شروع کروائی جاتی ہیں اور دوسری طرف ریاستی سطح پرکفایت شعاری نام کی کوئی چیز کہیں موجود نہیں ہے، حال آں کہ اجتماعی قومی دولت کے ضیاع کو روکنا‘ ریاستی فنڈز اورعوامی پیسوں کے احتساب کے اعلیٰ معیارات میں مضمر ہے، جو کسی بھی ملک کے سیاسی رہنما استعمال کرتے ہیں، جب کہ ہمارے ہاں اگر پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں اور مراعات کی بات کی جائے تودنیا کے اکثر ممالک میں جہاں سیاست دانوں کو بہت کم تنخواہ ملتی ہے، ان کو کوئی خصوصی مراعات بھی نہیں دی جاتیں، وہ ملک ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں، جب کہ پاکستان میں ایسے سیاست دان ہیں جو ٹیکس دہندگان کے وسائل کو بے رحمی سے ہڑپ کرتے ہیں اوراپنے آپ کو لامحدود مراعات دیتے ہیں اور کام ٹکے کا نہیں کرتے۔
قرضوں اور غربت میں ڈوبے ہوئے ملک پاکستان کا وزیر اعظم 12,000 مربع گز پر پھیلے ایک شان دار محل میں رہتا ہے۔ ہماری قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کل وقتی سرکاری لگژری کاروں اور ڈرائیوروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جو عوامی خرچ پر رکھی جاتی ہیں۔ الاؤنس، خصوصی یومیہ الاؤنس، کنوینس الاؤنس، میڈیکل الاؤنس اس کے علاوہ ہیں۔کیا اسلام آباد کے کانسٹی ٹیوشن ایونیو کے نئے مکینوں میں اتنی اَخلاقی جرأت اور سمجھ داری ہے کہ وہ اپنے اور تمام سرکاری افسران سے مراعات، الاؤنسز، سرکاری گاڑیاں، مفت پیٹرول، بجلی، گارڈز، ڈرائیورز، سیکریٹریز، معاونین، نائب قاصد اور دیگر متعدد امتیازی حقوق واپس لے سکیں؟ جس کا عام شہری خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ پھر اس پر مستزاد یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ غریبوں کے مقابلے میں حکومتی سبسڈی سے کہیں زیادہ مستفید ہوتی ہے۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ کو سالانہ 17 ارب ڈالر سے زیادہ کی سبسڈی دی جاتی ہے۔
دھاندلی شدہ انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت پچھلے پیکج کی قسط وصول کرکے ہڑپ کرنے کے بعدآئی ایم ایف سے نئے پیکج کا مطالبہ بھی کررہی ہے۔ روز مرہ کے اخراجات کے لیے آئی ایم ایف سے حاصل شدہ قرض کی لت پر ملک کا بڑھتا ہوا اِنحصار پاکستانی عوام کی اکثریت کے لیے تشویش کا باعث ہے، کیوں کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ ان پروگراموں سے معیشت میں کوئی بامعنی بہتری آئی ہے۔
معاہدے کے مطابق، حکومت نے طے شدہ اہداف حاصل نہ ہونے کی صورت میں جاری مالی سال کے اختتام تک مزید ٹیکس عائد کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس سے لوگوں کی پریشانیوں کا کوئی خاتمہ نہیں ہوگا، کیوں کہ آئی ایم ایف نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ پاکستان ایک اَور درمیانی مدت کے پروگرام کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لیے بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان قرضوں میں اس بُری طرح پھنسا ہوا ہے کہ ہر جاری پروگرام کی تکمیل پر آئی ایم ایف سے نئے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ تقریباً تمام متواتر حکومتوں کے بار بار دعوؤں کے باوجود ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ان کا پروگرام آخری ہوگا۔ کوئی یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ اگر ہم قرض کے تازہ انجکشن کے بغیر اپنے معاملات اور قرض کو سنبھال نہیں سکتے تو پھر کیا ہوگا۔
اب عوام کو سوچنا ہوگا کہ عوام سے ووٹ لینے کا ڈھونگ رچانے والے در پردہ کن قوتوں کے نمائندہ ہیں؟ یہ انھیں قوتوں کے نمائندہ ہیں، جن کے لیے عوام پر آئے دن نئے سے نئے ٹیکس لگاکر ان کے لیے باج گزاری کی جاتی ہے۔ یہ عوام کو کوئی معاشی ریلیف دینے کے بجائے ان کے زخموں پر آئی ایم ایف کا نمک چھڑکتے رہتے ہیں۔ (مدیر)
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
وفاق المدارس، نئے تعلیمی بورڈزاور جدید وقدیم نصابِ تعلیم کا مسئلہ !
پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ …
مسلم دُنیا کو درپیش چیلنجز اور بیسویں صدی کی مسلم فکر
اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی ب…
حکمران اشرافیہ کی نا اہلی اور مہنگائی کا نیاگرداب!
پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے گزر رہا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا ک…
افغانستان سے امریکی انخلا اور پاکستان کو درپیش چیلنج!
2021ء کے اگست کا آغاز ہوچکا ہے۔ 14؍ اگست کو ہمارے ملک میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے مختلف النوع تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے، جس میں ماضی کی تاریخ سمیت پاکستان کو حال میں در…