عن عبداللّٰہ بن مسعودؓ: عَن رسول اللّٰہﷺ:
’’لا سمر إلَّا لمصلّ أو مسافر‘‘۔ (سنن ترمذی، 2730)
(سیّدنا عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں، نبی کریمﷺ نے فرمایا:
’’صرف نمازی اور مسافر لوگ شب کو گفتگو کرسکتے ہیں‘‘۔)
نمازِ عشا کے بعد بلاضرورت جاگنے اور رات کو آنکھوں میں گزارنے سے اس حدیثِ مبارکہ میں منع کیاگیا ہے، تاہم صرف دو لوگوں کو رات کو جلد نہ سونے کی رخصت ہے: ایک عبادت میں مشغول شخص اور دوسرا وہ جو سفر کی حالت میں ہو۔ مذکورہ دو قسم کے اشخاص کے علاوہ اَور لوگوں کو راتوں کو بلاوَجہ جاگنے، قصہ گوئی، گپ شپ میں مشغول رہنے اور بے مقصد مجلس آرائی کرنے سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔
آپ ﷺ نمازِ عشا کے بعد عموماً جلد استراحت فرماتے تھے۔ رات کے آخری حصے میں تہجد اور ذکرواذکار کے لیے بیدار ہوجاتے تھے۔ بعض حالات میں رات کے اکثر حصے میں آپﷺ سے دیر تک جاگنے کی روایات بھی منقول ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا تھا، جب آپﷺ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ دینی اُمور پر گفت و شنید اور رہنمائی میں مشغول ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو آرام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ (القرآن، 9-10:78) البتہ قرآن ان لوگوں کی فضیلت بیان کرتا ہے جو رات کے آخری پہر اپنے رَبّ کے سامنے کھڑے ہوکر اور سجدے کرکے اللہ کو راضی کرنے میں اپنا وقت قیمتی بناتے ہیں۔ (القرآن، 64:35) نیز ان لوگوں کو استثنا حاصل ہے، جو دینی اُمور میں مشغول ہوں۔ یہ مشغولیت خواہ دین سیکھنے سکھانے کی ہو یا غلبۂ دین کے عملی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہو۔ ان کے علاوہ راتوں کو جاگنا اس حدیثِ مبارکہ میں ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے، جب کہ رات کو جلد سونا اور صبح جلدی اُٹھنا‘ پسندیدہ عمل قرار پاتا ہے۔
عصرِ حاضر کی غلط سماجی اَقدار میںسے ایک نقصان دہ طرزِ عمل یہ ہے کہ رات گئے تک جاگنے کا رویہ رواج پاگیا ہے، بلکہ جلد سونے والوں پر تعجب کا اِظہار کیا جاتا ہے۔ رات کی مجلس آرائیوں میں عموماً بے فائدہ اجتماعیت، بے نتیجہ مباحثوں اور ناپسندیدہ طرزِ گفتگو کا چلن عام ہوتا ہے اور خلافِ شرع اُمور کے وقوع پذیر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس غیرفطری طرزِ زندگی سے خرابیٔ صحت کے ساتھ صبح اُٹھ کر تہجد ادا کرنے کا مسنون مبارک عمل متروک ہوتا جارہا ہے۔ بہت سے لوگ نمازِ فجر کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں، جس سے روح کی پژمردنی اور بے سکونی جنم لیتی ہے۔ معمولاتِ زندگی فطری دائرئہ عمل سے خارج ہوجاتے ہیں اور زندگی بے برکت ہوجاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دن اور رات کے اپنے معمولاتِ زندگی زیرِنظر حدیث مبارک کی روشنی میں ترتیب دیں، تاکہ دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب ہوں۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…