77سال قبل جب پاکستان کی ریاست وجود میں آئی تو تقسیم کی لکیر کے اس پار سے جوق در جوق لوگ اپنے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے یہاں پہنچے، لیکن گزشتہ ستتر سالہ حوادث و واقعات نے ان کی آنکھیں کھول دیں کہ یہ پاکستان ان کے خوابوں کی ہرگز تعبیر نہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد سے آج تک جو قوتیں نظام پر مسلط ہیں، وہ مسلسل آج بھی اسلامی نظام، جمہوریت، روٹی کپڑا، مکان اور انصاف کے خواب قوم کو بیچتی رہتی ہیں، لیکن قومی زندگی کے پے درپے واقعات اب اس فریب کا پردہ چاک کر چکے ہیں، لیکن یہاں کی ’’سیاسی قوتیں‘‘ اور ان کے نمائندے اب بھی اپنے ڈگر سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ قوم کو اس فریب خوردگی کے نت نئے حربوں کا پے در پے شکار رکھنا چاہتی ہیں، جس میں آج تک قوم مبتلا ہے۔
اگر ہم گہرے شعور سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیں کہ یہاں موجود سیاسی گروہوں کا نظریہ، اساسِ فکر اور منتہائے مقصود کیا ہے؟ جس پر وہ اس ملک کی ترقی کی دیوار چننا چاہتے ہیں تو ہمیں آسمانِ سیاست کا مطلع ابر سیاہ سے آلودہ نظر آتا ہے، کیوں کہ یہاں موجود جملہ قوتوں کا آخری مقصد‘ اقتدار کے ذریعے ذاتی مفادات اور مالی منفعت کے سوا کچھ نہیں اور ان کی اس خواہش نے میدانِ سیاست اور منظرِ ریاست کو اتنا گدلا کردیا ہے کہ کوئی سمجھ دار انسان اس میدان میں قدم رکھنے کو گناہِ کبیرہ سے کم تصور نہیں کرتا۔
سیاست و حکمرانی کی اس رَوِش نے ملک کے پورے نظام کو تہہ و بالا اور تمام قومی اداروں کے مزاجوں کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ بدعہدی، وعدہ شکنی، کرپشن، قانون شکنی اور فریقانہ جانب داری کا ’’ارذلی‘‘ نمونہ بن چکی ہے۔ یہاں کسی نظریے کی سچائی کے بجائے قوت و استبداد کی اَساس پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اگر کسی آئینی ادارے کا فیصلہ پسند نہ آئے یا اس پر عمل درآمد میں فریقانہ پاسداری متأثر ہوتی ہو تو اپنے من پسند عزائم کے تحت وجود میں لائی گئی پارلیمنٹ سے اس فیصلے کے محرک قانون ہی کو بدل دیا جاتا ہے اور اس کو مؤثر بہ ماضی قرار دے کر دنیائے قانون کو حیرت زدہ کردیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہماری موجودہ سیاست کے بگاڑ کی بنیاد 1947ء ہی میں رکھی گئی تھی جس نے اس وقت کی استعماری اسٹیبلشمنٹ کی شہہ پر موجود سیاست پر قابض خاندانوں کے آباؤ اجداد اور سیاسی مدر پارٹی نے قومی سیاست کے چہرے کو داغ دار کیا تھا، جس کی پرچھائیاں آج کے سیاسی چہرے پر مزید نمایاں ہیں۔ گویا منافقت، بے اصولی اور قول و فعل کا تضاد اور عہدوپیماں سے گریز کی رَوِش اسی دور کی پیداوار ہے۔ اس دور ہی میں ہماری سیاسی شطرنج کا ایک ایسا چوکھٹا تیار کرلیا گیا تھا کہ جو اس کے اندر سما جائے اسے نظام قبول کرلیتا ہے اور جو نامناسب بیٹھے اسے فنا کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔ آج تک ہماری سیاست میں یہی طریقہ رائج ہے، جس کی پاسداری پاکستانی سیاست کے سبھی فریق کررہے ہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی کھڑے ہوں، اسی استعماری سیاست کے چوکھٹے کے کونے کھدرے ہیں، اس سے باہر کوئی نہیں۔
چناں چہ وطنِ عزیز پاکستان کے قیام پر پون صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، مگر اس ملک کے ناگفتہ بہ اجتماعی حالات اسی استعماری سیاست کے چوکھٹے میں موجود کرداروں _ سیاسی و مذہبی قیادتوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی _ کی کارستانیوں کا منہ بولتا نمونہ ہیں، جن کے ہاں صالح قومی فکر اور سیاسی بصیرت کا ہمیشہ فقدان رہاہے، جس کی وجہ سے ہماری قومی سیاست ہمیشہ وقتی جذبات و ہیجانات کی اسیر رہی، جس میں نتائج وعواقب پر نظر رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور انتقامی کارروائیوں نے قوم کوبے نتیجہ سیاست کی بادیہ پیمائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کا صحت مند اجتماعی سیاسی کلچر نئے عہد کے سیاسی تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ آج ہمارے گردوپیش دنیا کی قومیں آزادی کا ایک دور گزارنے کے بعد اپنے نئے سیاسی تقاضوں سے نمٹنے کے لیے اپنی نئی سیاسی نسل کی تربیت کرچکی ہیں، لیکن جہاں سامراجی نظام کے شکنجے کو اسی قوم کی پُرانی سیاسی قیادت رنگ و روغن فراہم کرے، وہاں اسی پُرانے سیاسی ڈھانچے کے مطابق ذہنی، اَخلاقی اور سیاسی سانچہ تیار ہوتا ہے، جس میں مستقبل کی آلۂ کار سیاسی لیڈرشب پُرانے گملوں میں سینچی جاتی ہے۔ اس ملک کی ابتدائی سیاسی قیادت نے اپنے سانچے سے تیار شدہ سیاست کے جاگیرداروں اور مارشل لاؤں کے ذریعے زرداروں اور شریفوں کو جنم دیا۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی تو خدا نخواستہ قوم ان کی ’’سیاست‘‘ کی تباہ کن قیمت چکائے گی۔ موجودہ نظام اپنے مخصوص سانچے میں ڈھلے ِسکے ّہی بازارِ سیاست میں چلاتا ہے، اپنے ٹیکسال میں ڈھلے پُرزوں کو اقتدار کے لیے خود ساختہ سیڑھیاں فراہم کرتا ہے اور قومی حقیقی سیاسی سوچ پر پہرے بٹھا دینے کو قانون کی بالادستی قرار دیتا ہے۔ ہمارے سیاسی تاریخی تسلسل کا یہی نچوڑ اور خلاصہ ہے۔
آج ہماری نئی نسل کو اس پر یکسو ہونا ہوگا کہ وہ اس سیاسی ڈھانچے سے باہر رہتے ہوئے اپنے آزاد قومی سوچ کے پودے کو تن آور درخت بنانے پر کمربستہ ہو، کیوں کہ آج حقیقی آزادی سے ہم کنار قوموں نے اسی راستے سے گزر کر ہی اپنی حقیقی آزادی کے تن آور درختوں سے قومی باغ لگائے ہیں۔ پھر انھیں اپنے خون پسینے سے سینج کر باغات کے عظیم سلسلے میں بدل کر ترقی کی شاہراہ آراستہ کرچکے ہیں اور آزاد اقوام آج اس کے سائے میں آسودگی کے ساتھ آگے بڑھتی جارہی ہیں۔ اسی تجربے میں ہی ہماری قومی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
معاشی پھیلاؤ کا بجٹ
آمدہ سال حکومت 131 کھرب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس مقصد کے لیے خود حکومتی اندازے کے مطابق قریباً 79 کھرب روپے وصول کیے جاسکیں گے۔ باقی رقم اندرونی اور بیرونی قرض…
پاکستان میں غلبۂ دین کے عصری تقاضے
ہم نے گزشتہ مہینے انھیں صفحات پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے تناظر میں دو اہم سوالوں کے جوابات کے ضمن میں دو انتہاؤں کا جائزہ لیاتھا کہ وہ کیوں کر غلط ہیں۔ آج…
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو
اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…