آج کل ایک بار پھر پاکستانی قوم اتحاد کی سیاست کی زد میں ہے۔ پاکستانی سیاست میں اس طرز کا سیاسی کھیل پہلی بار نہیں ہورہا۔ یہ کھیل ہماری قومی تاریخ میں ہر چند سال بعد دُہرایا جاتا ہے، لیکن تاریخ اور سیاست کے طالبِ علم کے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ ایسے اتحاد کب، کیسے اور کیوں بنتے ہیں؟ ہماری سیاسی جماعتیں اصل کام کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟ کیا اصل کام کے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ یا یہ جماعتیں خود اس کام کے راستے کا سب سے بھاری پتھر ہیں؟ یہ بات تاریخی مسلمات کا درجہ اختیار کر چکی ہے کہ ایسی تحریکیں اوراتحاد کوئی ٹھوس نتیجہ پیدا نہیں کرسکتے، جیساکہ ہم اِنھیں صفحات پر ملک میں وقفے وقفے سے اٹھنے والی تحریکات کے حوالے سے بار ہا عرض کرچکے ہیں۔
آج کا سب سے اہم قومی سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کی تحریکیں اپنی منزلِ مراد تک کیوں نہیں پہنچ پاتیں؟ دراصل بات یہ ہے کہ ان کی کوئی قومی اور اجتماعی منزل ہی نہیں ہوتی، البتہ ان پارٹیوں پر قابض شخصیات نے اپنے شخصی اور انفرادی مفادات کے حوالے سے جو کچھ طے کررکھا ہوتا ہے، اگر وہ مل جائے تووہ درپردہ حاصل کرکے تحریکیں ختم کردی جاتی ہیں۔
پنجاب میں ملک خضرحیات ٹوانہ کے خلاف قیامِ پاکستان سے چند ماہ قبل چلنے والی سول نافرمانی کی ایک تحریک میں جب ایک پارٹی نے ’’خضری کتا ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگوائے اور پھر سر ظفراللہ خاں کے ذریعے جب خضرحیات کو استعفیٰ اور مسلم لیگ سے تعاون کا پیغام دیا گیا اور خضرحیات پنجاب کی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے اور یہ خبر خضرحیات کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں پہنچائی گئی اوریہ مشہور کردیا گیا کہ خضرحیات نے مسلم لیگ جوائن کرلی ہے تو وہاں سٹیج سے ایک نعرہ بلند ہوا کہ ’’ابھی ابھی خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے‘‘۔ یہ نعرہ ہمارے اس طرح کے سیاسی اتحادوں اور تحریکوں کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کچھ لوگوں کے مفادات کو تحفظ مل جانے کے بعد دفعتہ پوری تحریک کا رُخ بدل دیا جاتا ہے اور سیاسی دشمنوں کوبھی بھائی بنالیا جاتا ہے۔ شرم ناک بات یہ ہے کہ ایسی تحریکوں کوکامیاب بنانے کے لیے انسانی خون سے سینچاجاتا ہے۔ اس کے لیے معصوم انسانوں کی لاشیں گرائی جاتی ہیں۔
جہاں دنیا میں منظم عوامی تحریکوں کو کامیاب بنانے کے لیے قیادتیں نظام کے خلاف اپنے عوام کے حق میں ریلیف کے منصوبے اور ان کی حیات کی بقا کو زیربحث لاتی ہیں، وہاں ہماری نام نہاد سیاسی قیادت تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے عوام ہی میں سے چند لاشوں کے حصول کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ پاکستان میں ایسے ہی حکومتیں گرانے کے ایک مرحوم ماہر سیاست دان نے ایوب خاں کے خلاف اپنے سیاسی اتحادیوں سے حکومت گرانے کویقینی بنانے کے لیے ایک اجلاس میں چند لاشوں کے حصول کی حکمتِ عملی پر غور کیا تھا کہ اگر ہمیں اس تحریک کے آغاز ہی میں چند لاشیں مل جائیں تو پھر ایوب کی حکومت کو ہم سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہماری سیاست کا یہ انسان دشمن پہلو ہمارے آج کے نوجوانوں کے سامنے ہونا انتہائی اہم ہے۔
ان اتحادوں سے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ اس کی عمارت بہت ہی خوب صورت ناموں پر کھڑی کی جاتی ہے، جس میں قومی اتحاد اور نظامِ مصطفی کی اینٹوں سے اس کا صدر دروازہ چنا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ان کی اپنی پارٹیاں تحریکی جذبے اور جمہوریت سے بالکل خالی ہوتی ہیں۔ یہ کوئی حقیقی اتحاد نہیں ہوتے، بلکہ ایک وقتی انبوہ ہوتا ہے، جو اپنے اپنے مفادات کو لاحق خطرات کی وجہ سے جمع ہوجاتا ہے۔ ملک اور قوم کے مفاد میں کوئی طویل المدتی عمل اور منصوبہ بندی ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو اب تک کی بیسیوں ایسی تحریکیں اور اتحاد ہمارے دُکھوں کا مداوا کرچکے ہوتے، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ایسی تحریکوں کے اختتام پر قوم ایک نئے عذاب اور بحران سے دوچار ہوجاتی ہے۔ گویا ان کا معاملہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والا ہی رہتا ہے۔موجودہ اپوزیشن اتحاد ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ کا سیاہ ترین پہلو کرپشن اور بدعنوانی میں لتھڑی لبِ گور سیاست کو مذہبی کارکنوں کے دینی جوش وخروش سے آ کسیجن فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جوکرپٹ سرمایہ داروں کو مذہب کے سہارے تحفظ دینے کے مترادف ہے۔ جو دینِ اسلام کے عوام دوست نظریے کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا لگانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
ان تحریکوں کی بنیاد نظریے کے بجائے نعرے پر ہوتی ہے۔ ان کے نعروں میں موجود حتمیت اور قطعیت (definitiveness) عوام کے لیے سب سے بڑا فریب ہوتا ہے، حال آںکہ یہ اپنے ہی اعلانات کے علیٰ الرغم محاذ چھوڑ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں ’حکومت اس وقت تک قائم ہے، جب تک یہ تحریک شروع نہیں کرتے۔ جس دن انھوں نے جلسہ گاہوں کو رونق بخش دی، اس کے بعد حکومت چند گھنٹوں کی مہمان رہ جائے گی‘۔ لیکن ان نعروں کی قطعیت کی حقیقت سابقہ دھرنوں اور جلسوں میں ان نعروں اور دعوؤں سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جس میں یہ انبوہ ہفتوں سر پھٹول کرکے واپس لوٹے تھے۔ ان کی قیادت چند گھنٹوں میں لگژری گاڑیوں میں آرام دہ کمروں تک پہنچ جاتی ہے، جب کہ کارکن ہفتوں خجل خوار ہوکر اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے میں کہیں جاکر کامیاب ہوتے ہیں۔ اس صورتِ حال کو 2015ء میں مسند ِاقتدار پر براجمان جماعت کے دھرنے اور اکتوبر 2019ء کے ایک مذہبی جماعت کے اسلام آباد دھرنے کے تناظر میں بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمارا نوجوان ان وقتی مفاداتی تحریکوں کے میکنزم کو سمجھے اور اس کی پشت پر موجود تانے بانے کے خوف ناک مقاصد کے خلاف اپنا قومی شعور بیدار کرے۔ قومی آزادی کے حقیقی مشن کو اپنا نصب العین بناکر انسانیت کی ترقی کا ایک ایسا نظام قائم کر دکھائے، جو دنیا کے لیے زندہ مثال بن سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ملکی ترقی کے حقیقی سیاسی شعور اور مشن کے لیے قبول فرمائے (آمین!)۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔