پاکستان میں سودے بازی کی ’’جمہوریت‘‘، ایک جائزہ

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
نومبر 12, 2023 - شذرات
پاکستان میں سودے بازی کی ’’جمہوریت‘‘، ایک جائزہ

آج پاکستان حکمرانی کے عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ قوم الیکشن کا بڑی بے تابی سے انتظار کررہی ہے۔ نگران سیٹ اپ بھی جلد الیکشن کے اقدامات کے اعلانات دُہراتا رہتا ہے۔ لیکن پاکستانی سیاست کے نبض شناس اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ الیکشن اسی وقت ہوں گے جب ’طاقت کا مرکز‘ چاہے گا۔ اب دیکھئے ’طاقت کے مرکز‘ کے ساز گار حالات کا اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مستقبل کے اصل حالات کا درست اندازہ اسی وقت ہوپائے گا۔ تاہم جاری سیاسی حالات میں 21؍ اکتوبر کو پاکستانی سیاسی نظام کی یکے از گُرْگِ باراں دِیدہ شخصیت کی آمد نے کسی قدر حالات کے سیاسی دھارے کے رُخ پر قیاس آرائیوں کا سامان فراہم کردیا ہے۔ 
پاکستانی سیاسی تاریخ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں حقیقی سیاسی اور جمہوری پراسس کے نہ پنپ سکنے کے نتیجے میں کوئی حقیقی قومی لیڈر شپ نہیں اُبھر سکی، بلکہ یہاں قوم کو منصوبہ سازوں نے کھلونوں کی طرح سیاسی لیڈر فراہم کیے۔ پھر جب کبھی قوم سے وہ کھلونا لے کر دوسرا کھلونا دینے کی کوشش کی گئی تو جیسے بچے سے زبردستی کھلونا چھینا جائے تو چھیننے والے کو بچے کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسے ہی ہمارے منصوبہ ساز کئی بار ایسے غصے اور مزاحمت کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہماری سیاسی رجیم میں موجود پارٹیاں اور ان کی لیڈرشپ، جو بڑی شدومد سے ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں، نہ ان کی پارٹیوں میں جمہوریت ہے اور نہ ہی ان کے اپنے رویے جمہوری ہیں، بلکہ یہاں سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ یہاں کی جمہوریت آلۂ کار سرمایہ داروں اور طفیلی جاگیر داروں کی جیب کی گھڑی ہے۔ اس ملک کے سیاست دان خود منصوبہ سازوں کے ساتھ مل کر اپنے طبقاتی مفادات کی خاطر کئی بار جمہوریت کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں۔ انھیں جمہوریت صرف اس وقت یاد آتی ہے جب انھیں اقتدار سے باہر کردیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دان خود حقیقی جمہوریت نہیں چاہتے۔ ان کے غیر حقیقی کردار کے سبب قوم ہمیشہ سے حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے محروم رہی ہے۔ 
اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے نام نہاد جمہوری دور میں جمہوریت کی طرز پر ادارے تو قائم کر لیے، لیکن ان اداروں کا حقیقی کردار ان کو نہیں دے سکے۔ جس کے نتیجے میں یہ ادارے اپنے نام کی حد تک تو موجود ہیں، لیکن ان کا حقیقی عملی کردار اور نتائج بالکل ناپید ہیں۔ آج ہماری ریاست کا سارا نظام انھی نام نہاد اداروں پر کھڑا ہے، لیکن یہ عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ بُری طرح کھوچکے ہیں۔ جن ملکوں میں سسٹم کے بنیادی ادارے جیسے عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں متعین طرزِ عمل اور اپنی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اُمور سر انجام دیتے ہیں وہاں، اور جہاں یہ ادارے صرف نام کی حد تک ہوتے ہیں، ان دونوں جگہوں پر نتائج کے حوالے سے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ 
ہماری سیاسی جماعتوں کی بیش تر قیادت مرغ باد نما اور ابن الوقتی کا مظہر ہے۔ اس لیے آج ’طاقت کے مرکز‘ کی پُرانی فرماں بردار جماعتوں کے سیاست دان اپنے مفادات اور اقتدار کے لیے بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ نہ ان کی اپنی کوئی سوچ ہے اور نہ نظریہ! اور ریاست پہ کنٹرول رکھنے والے اداروں کو آج ایسے ہی سیاست دانوں کی ضرورت ہے جو اپنی کوئی سوچ اور ویژن رکھنے کے بجائے صرف ان کی حکمتِ عملی کا سول (civil) چہرہ بن سکیں۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ ایسی سیاسی شخصیات کے بارے میں جن کا اپنا کوئی ویژن نہ ہو، ایسے اداروں کو سوچنا چاہیے کہ وہ آنکھیں بند کیے تانگے کے آگے جتنے کے سوا نیا کچھ نہیں کر سکیں گے۔
چرخ لندن سے خصوصی پرواز کے ذریعے اُترنے والے پاکستانی سیاسی سرکس کے شیر‘ رِنگ ماسٹر کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ سزا یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی مقدمات میں عدالتوں کو مطلوب تھے، لیکن پاکستان میں ’طاقت کے مراکز‘ جب مطلع کا رنگ بدل دیتے ہیں تو وہی کورٹس، وہی دلائل، وہی شواہد ہوتے ہیں، جن پر پہلے ملزم کو سزا سنادی جاتی ہے، پھر اسی ملزم کو بری کروالیا جاتا ہے۔ اب کی بار بھی وہی پیٹرن اور وہی طریقۂ کار ہے جس کے تحت ماضی کی ڈیلز ہوتی رہی ہیں۔ مختلف اوقات کی ان سیاسی اقساط سے نظام کا چہرہ بے نقاب ہوتا رہتا ہے۔
پاکستانی سیاست کی اصل روایت ڈیل (deal) ہے۔ یہاں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری قومی سیاست حالات کے جبر کا شکار رہی ہے اور اس کا پینڈُلَم ڈیلز کے گرد گھومتا رہا ہے۔ اس کا اپنا آزادانہ تشخص کبھی نہیں رہا۔ آج بھی پاکستان میں کسی سیاست دان اور پارٹی کی سمجھوتے کے بغیر بقا ممکن نہیں۔ جس سے ڈیل ہوگی‘ اسے ہیرو بنالیا جائے گا اور جس سے نہیں ہوگی‘ اسے زیرو کردیا جائے گا۔ منصوبہ ساز جو چاہ رہے ہیں ویسا ہوجائے گا، یعنی مرضی کی ایک حکومت قائم کرلی جائے گی۔ کیوں کہ پولیس، انتظامیہ اور عدالتی نظام سمیت ہر جگہ اس رجیم کے لیے ہمدردی اور تعاون کی فضا قائم کردی گئی ہے۔ میڈیا؛ جس کا نان و نفقہ ہمیشہ چڑھتے سورج سے وابستہ ہوتاہے، وہ بھی انھی کے گن گا رہا ہے۔ سوچنے کی اصل بات یہ ہے اب جس طرح سے نیا ڈھانچہ کھڑا کیا جارہا ہے، کیا یہ چل پائے گا؟ اور ملک کوئی قدم آگے بڑھا سکے گا؟ اور کیا اس فرسودہ نظام کی استعمال شدہ سیاسی قوتیں کسی نئے سوشل کنٹریکٹ (social contract) کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
موجودہ صورتِ حال میں کسی کی بھی جیت نظر نہیں آتی۔ سب ہی وقت کو دھکا دینے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ مقتدرہ کو افراد اور شخصیات سے بالاتر ہوکر یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ موجودہ صورتِ حال سے نکلنے کے لیے جن نظریات کا سہارا لے کر پالیسیاں بنارہے ہیں، کیا ماضی میں اس ویژن کے فیصلوں نے ہمیں بحران سے نکالا؟ یا بحران زیادہ سنگین ہوتے رہے ہیں؟ ہماری داخلی کمزوری ہمارے نظام کی فرسودگی ہے۔ قوم کے نوجوانوں کو اس نام نہاد لیڈر شپ کے سپرد کرنے کے بجائے فیصلے اب اپنے تاریخی شعور کی بدولت خود کرنے اور آگے بڑھ کر قوم کو ایک حقیقی لیڈر شپ فراہم کرنے کی تیاری کرنی چاہیے، تاکہ قوم اس گہرے کُہر سے نکل کر درست سمت سفر کے آزادانہ فیصلے کرسکے۔ (مدیر)

 

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

اپنے کندھوں پر نظام کی صلیب اُٹھائے سیاست دان

ہمارے ملک میں گزشتہ مہینے کے بیتے واقعات نے ایک بار پھر ہمارے سیاسی نظام، پارٹیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے چہروں سے نقاب کو سِرکا دیا ہے۔ وہ لوگ جو اسی…

مولانا محمد عباس شاد اپریل 17, 2021

امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو

اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…

جون 16, 2021

ایشیا سے امریکی اِنخلا کا آغاز؛ افغانستان

عالمی اَخبارات کی فراہم کردہ خبریں دنیا میں خبر کا معیار سمجھی جاتی ہیں۔ خطے میں تربیت یافتہ صحافی اور اَخبارات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ امریکا کی کسی بھی ناکامی کو کامیاب…

مرزا محمد رمضان جولائی 08, 2021

پاکستان میں غلبۂ دین کے عصری تقاضے

ہم نے گزشتہ مہینے انھیں صفحات پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے تناظر میں دو اہم سوالوں کے جوابات کے ضمن میں دو انتہاؤں کا جائزہ لیاتھا کہ وہ کیوں کر غلط ہیں۔ آج…

مولانا محمد عباس شاد مارچ 14, 2021