پاکستان کی‘ سرمایہ داری نظام کی وجہ سے معاشی بدحالی روز افزوں ہے، جہاں عوام جان کی قیمت پر آٹے کے ایک تھیلے کے لیے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے آٹے یا موت کا انتظار کررہے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف سیاسی پولرائیزیشن ایک خاص حد کو عبور کرتی نظر آرہی ہے۔ گیارہ سیاسی جماعتوں کا حکمران اتحاد ایک طرف، جب کہ سابقہ وزیراعظم کی جماعت دوسری طرف کھڑے اس نظام سے تنگ آئے عوام کا لہو گرم رکھنے میں مصروفِ عمل ہے۔
اس وقت پاکستان کی تاریخ اپنے آپ کو ساٹھ کی دہائی میں ’’پی ڈی ایم‘‘ کی صورت میں بننے والے اتحاد اور حکمران قوتوں کے باہمی رابطوں کو دُہرا رہی ہے، بلکہ تقریباً ستر کی دہائی کی سیاسی صورت گری سے بھی خاصی مماثلت رکھتی ہے، جب ملک کی قابلِ ذکر تمام سیاسی جماعتیں ’’قومی اتحاد‘‘ (پی این اے) کے نام سے اس وقت کی واحد حکمران پارٹی کے خلاف قوم کو آمادۂ پیکار کررہی تھیں۔ اس وقت کے قومی اتحاد کو سرمایہ دارانہ نظام کے بین الاقوامی محافظ ملک کی درپردہ حمایت حاصل تھی، جس کے ایما پر بعد ازاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے حکمران پارٹی کو نہ صرف اقتدار سے بے دخل کیا، بلکہ منتخب وزیراعظم کو ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے تختۂ دار پر بھی کھینچ دیا گیا اور ملک پر ایک بدترین مارشل لاء مسلط کردیا گیا۔ گویا قومی اتحاد کی ’’نظامِ مصطفی‘‘ کے نام پر چلائی گئی تحریک کا اختتام مارشل لاء کی تاریک ترین صورت میں قوم کو ملا۔ اس وقت کے قومی اتحاد کی سربراہی ایک مذہبی شخصیت کو بخشی گئی تھی، تاکہ حکمران مخالف تحریک کو مذہب کے سہارے عوامی جذبات کا ایندھن فراہم کیا جاسکے۔ آج بھی گیارہ جماعتی حکمران اتحاد کی سربراہی کا تاج ایک مذہبی شخصیت کے سر پر سجایا گیا ہے اور وہ سیاست میں مذہب کے استعمال کی روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ستر کی دہائی میں سارے ریاستی ادارے اسٹیبلشمنٹ کے حسبِ خواہش منتخب حکومت کے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے۔ اسی طرح ستر کی دہائی کے ’’پی این اے‘‘ اور آج کے اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ کے سربراہوں میں باپ بیٹا ہونے کے علاوہ اَور بھی بہت سارے پہلو مماثلت لیے ہوئے ہیں، مثلاً بھٹو حکومت کی طرح عمران حکومت کو بھی امریکا کے حسب ِخواہش ’’رجیم چینج آپریشن‘‘ کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت ساری قوتیں بھی حسبِ سابق ایک پیج پر جمع ہیں۔ اور اگر کسی ادارے سے حکومت مخالف کسی فیصلے کی کمک‘ مزاحمت کاروں کو میسر آ سکتی ہے تو جیسے ماضی میں پی سی او کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کی نئے سرے سے تشکیل ہوتی تھی تو اب اسے قابو کرنے کے لیے راتوں رات لنگڑی لولی پارلیمنٹ میں قانون سازی کا ڈول ڈالا گیا، تاکہ چیف جسٹس کو اپنے کولیگز کے ذریعے قابو میں رکھا جاسکے۔ جیسا کہ اس جتھے نے اپنے دورِ اقتدار میں عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس پر چڑھ دوڑنے اور اُن کو اُن کے اپنے ساتھیوں کے ذریعے برطرف کرنے کا شرم ناک کردار ادا کیا تھا۔
معزول حکومتی جماعت کے ارکان اور ورکرز کو کل کی طرح اسٹیبلشمنٹ سمیت ریاست کی دیگر فورسز کے بدترین تشدد سہنے کے ساتھ ساتھ جھوٹے مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ جیسے ستر کی دہائی میں متحدہ قوتوں نے اپنے مخالف سیاسی لیڈر کی جان لے کر اس تحریک کا ڈراپ سین کیا تھا، ماضی کی طرح آج کی بھی وہ قوتیں خود ساختہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے ذریعے اقتدار سے الگ کی گئی اپنی سیاسی مخالف جماعت کو رستے سے ہٹانے کے لیے اُس کی جان کے درپے ہیں، جیساکہ وہ ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک میں امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار وزیرداخلہ انھیں غیرجمہوری اور غیراصولی طریقوں سے سیاسی منظرنامے سے منفی کرنے کے عزائم کا برملا اظہار کرچکے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’ہم میں سے کوئی ایک ہی رہے گا‘‘۔
اسی طرح اگر شکار (victim) فریق کے درمیان مماثلتیں تلاش کی جائیں تو وہ بھی سبق آموز ہیں، مثلاً ستر کی دہائی میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی پروجیکشن ایک فوجی سربراہ کے زیرِ سایہ ہوئی اور بہ قول جے اے رحیم: پاکستان میں کسی بھی متوقع انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے انقلاب کی وجہ بننے والے عوامی مطالبات کو کچھ درپردہ قوتوں کی طرف سے نعروں میں ڈھال کر ایک پارٹی بنوائی گئی، جس کا عوامی مقبولیت کا سفر حیران کن تھا۔ جس کے بعد وہ عوامی لیڈر کہلائے۔ اور بعد ازاں انھوں نے عوامی جلسوں میں فوج کو ہدفِ تنقید بناکر اپنا ایک بیانیہ تخلیق کرلیا اور انھوں نے ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ ایسے ہی موجودہ اقتدار سے بے دخل کی جانے والی پارٹی کے لیڈر ایک سابق آرمی چیف کی نظرِ کرم کے مرہونِ منت رہے اور اپنے پسندیدہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے ساتھ ساتھ سینہ تان کر انھیں ’’ڈیموکریٹ جنرل‘‘ کہتے نہ تھکتے تھے۔ اور ایسے ہی ان کے فالوورز نے سوشل میڈیا پر فوج کی جمہوریت نوازی کے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ اب یہ جماعت اس دور کو اپنا ’’زمانۂ جاہلیت‘‘ کہتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ سسٹم کیا ہوتا ہے؟ خدا کرے سیاست میں سرگرم عناصر کو سیاسی سوجھ بوجھ آجائے، ورنہ تو کل تک اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے والے تو آج انھیں کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنا قد اونچا کیے کھڑے ہیں۔
ہمارے باشعور نوجوانوں کے لیے پاکستانی سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس ملک میں جاری سیاسی عمل موقع پرستی کے گرد گھومتا ہے۔ یہاں کچھ طبقے ہیں‘ جو حسبِ موقع ساری صورتِ حال کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اس کے لیے سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں اور حکمرانوں کا گٹھ جوڑ بھی کروادیا جاتا ہے۔ جمہوریت کا ڈھونگ رچانے کے لیے الیکشن بھی کروا دیے جاتے ہیں۔ غریب عوام کے بجائے یہ طبقے اپنے مفادات کے لیے قانون سازی اور آئینی ترامیم بھی کرواتے رہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے بجائے عوام کو لنگرخانوں اور جان کی قیمت پر آٹے کے تھیلوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ ان سیاست دانوں کی اولادیں اربوں پتی، جب کہ ایک عام آدمی کے بچے پیدائشی آئی ایم ایف کے مقروض پیدا ہوتے ہیں۔
الغرض! ہمارا ملکی نظام آج تک کسی مثبت اُصول کا پابندنہیں، بلکہ یہ کچھ مخصوص طبقوں کے مفادات، عوام دشمنی، مفاد پرستی اور موقع پرستی کی بنیادوں پرکھڑا ہے۔ آج کے باشعور نوجوانوں کواس نظام کی چھتری تلے قائم سیاسی نظام کے گھن چکر کا حصہ بننے کے بجائے مستقل بنیادوں پر تبدیلیٔ نظام کی شعوری جدوجہد کے طریقوں کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ اپنانا ہوگا۔ ورنہ یہ کھیل تو قیامِ ملک سے لے کر تقسیم ملک سے ہوتا ہوا زوال کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کا ڈراپ سین ملک کی رہی سہی توانائی کو بھی نچوڑ کے نہ رکھ دے۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو
اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…
حکمران اشرافیہ کی نا اہلی اور مہنگائی کا نیاگرداب!
پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے گزر رہا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا ک…