معاہدات قوموں کی زندگی میں بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ معاہدے کے مقاصد کا واضح ہونا اَساسی تقاضوں میں شمار ہوتا ہے۔ فریقین کا کردار مرکزی نوعیت کا ہوتا ہے، جن کا آزاد اور خود مختار ہونا اوّلین شرط ہے۔ فریقین کا ہم پلہ ہونا معاہدے کو مؤثر بناتا ہے۔ انسانی تاریخ میں دو طرح کی جماعتوں کا کردار رقم ہے؛ معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملی شکل دینے والی جماعت اور محض التوائے وقت کی حامل گروہیت یا جتھہ۔ اگر ایک فریق کمزوراور دوسرا طاقت ور ہے تو معاہدہ برقرار رہنے کے امکانات مخدوش ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ معاہدے کی اصل روح عمل درآمد سے نمایاں ہوتی ہے۔
57 اسلامی ممالک نے مراکو کے شہر رباط میں شاہ حسن دوئم کے ذریعے 25؍ ستمبر 1969ء کو OIC تنظیم اسلامی کانفرنس (Organization of Islamic Conferenece) کے نام سے ایک فورم قائم کیا۔ 28؍ جون 2011ء کو وزرائے خارجہ کے 38 ویں اجلاس منعقدہ قزاقستان کے شہر آستانہ میں اسے اسلامی تعاون تنظیم (Organization of Islamic Co-operation) سے بدل دیا گیا۔ ’’کانفرنس‘‘ کے نام کو ’’تعاون‘‘ کے ساتھ تو بدل دیا، لیکن C تو C ہی رہا۔ اس کے باوجود رُکن ممالک کے مابین تعاون کی روح پیدا ہوسکی اور نہ ہی اسے فروغ مل سکا۔ 1974ء میں پاکستان کے شہر لاہور میں 22 تا 24؍ فروری کو تنظیم کا ایک غیرمعمولی سربراہ اجلاس منعقد ہوا، جسے ’’ لاہور سمٹ ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ اس میں مسلم ممالک کے اکثر بادشاہ اور سربراہانِ مملکت شریک ہوئے تھے۔ انھوں نے مل کر پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو کانفرنس کا منتخب چیئرمین بنا دیا۔ ساتھ ہی 1971ء میں نئے وجود پانے والے اسلامی ملک بنگلادیش کو بھی تسلیم کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کانفرنس میں بنگلادیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن نے بھی شرکت کی تھی۔ یہ اہم اجلاس لاہور شہر کے اہم مرکز قذافی سٹیڈیم میں منعقد ہوا تھا، جس میں لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کی یادگار تقریر نے ’’لاہور سٹیڈیم‘‘ کو ’’قذافی سٹیڈیم‘‘ بنا دیا۔ شاہ فیصل کی تاریخی آمد اور پاکستان کے لیے ’’فیصل مسجد‘‘ کے شان دار تحفے نے اسے خطے میں یادگار حیثیت دے دی۔ یہ حضرات مستقبل میں مسلم اُمہ کے لیڈربننے جا رہے تھے۔
او آئی سی کے قیام کا بنیادی مقصد روز ِاوّل سے ہی استعماری عزائم کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے ارکان ہمیشہ بے بس اور بے وقعت رہے ہیں۔ کبھی بھی رُکن ممالک کے مفادات محفوظ نہیں رہے۔ اگر کبھی کسی رُکن ملک کے سربراہ نے جذبۂ حریت کے تحت بسالت و بطالت کا قدم اُٹھانے کی دوڑ دھوپ و جدوجہد کی ہے تو اسے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنا پڑا ہے۔
1973ء میں پھر عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی، جسے ’’جنگِ کپور‘‘ کہا جاتاہے۔ یہ جنگ 6 تا 26؍ اکتوبر یعنی 21روز تک جاری رہی ( یہودی مذہب میں اسے مقدس ایام کی جنگ کہا جاتا ہے)۔ اس جنگ میں امریکا نے اسرائیل کی مادی اور غیرمادی دونوں طرح سے حمایت کی تھی۔ جس کے ردِ عمل میں تیل پیدا کرنے والے ممالک نے امریکا پر (Arab Oil Embargo 1973-74) ’’تیل کی ترسیل پر پابندیاں‘‘ عائد کردیں۔ چناں چہ امریکی صدر رچرڈ نکسن 14 تا 15؍ جون 1974 کو دو روزہ دو رے پر سعودی عرب پہنچا، جس کا مقصد شاہ فیصل سے ملاقات کرکے پابندیاں اُٹھوانے کے لیے دبائو ڈالنا تھا۔ ایک غلام کی اتنی جرأت کے وہ آقا کے خلاف پابندیوں جیسا اقدام کرے اور آئندہ کوئی اور غلام ایسی حماقت کرے۔ تنبیہ کرنے کے لیے 25؍ مارچ 1975ء کو بالآخر اسے شہید کر دیا گیا۔ معمر قذافی نے بعد میں بھٹو کو اس کے جوہری پروگرام میں تعاون فراہم کیا تھا۔ لہٰذا وہ بھی مستوجبِ سزا ٹھہرا۔ چناں چہ 20؍ اکتوبر 2011ء کو اسے بھی شہید کردیا گیا۔ جذبۂ حریت سے سرشار افراد کا ایسی خواہش پالنا استعمار کے نزدیک ایک ناقابلِ معافی جرم ٹھہرایا گیا۔ اسی طرح کی زندگی پاکستان کے سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کے لیے منتخب کی گئی۔ تعاونی تنظیم کی طاقت و قوت و ایمان کا اندازہ لگائیں کہ جب 1979ء میں پاکستان کے صدر ضیاالحق کے دور میں پاکستانی عدالتوں نے بھٹو کو موت کی سزا سنائی۔ اس وقت بھی وہ OIC کا چیئر مین تھا، لیکن کوئی بھی رُکن ملک اپنے سابق چیئر مین کی سزا میں تخفیف کروانے کی طاقت و اہلیت نہیں رکھتا تھا۔ حال آںکہ تمام ارکان یا تو بادشاہ تھے، یا اپنی اپنی حکومتوں کے سربراہ۔
حالیہ دنوں میں OIC کے وزرائے خارجہ کونسل کا 47 واں خصوصی اجلاس 19؍ دسمبر 2021ء کو پاکستان کے دارالحکومت اسلا م آباد میں منعقد ہوا، جس کا مقصد ’’افغانستان کے لیے امداد‘‘ کا حصول تھا۔ ارکان کے سامنے افغانستان میں انسانی المیے کا جائزہ پیش کیا گیا، تاکہ اس کے لیے کسی بھی قسم کی امداد حاصل کی جاسکے۔ ارکان کے علاوہ 4 مبصرین (اقوامِ متحدہ کانمائندہ، عالمی مالیاتی ادارے، علاقائی اتحاد اور یورپی یونین وغیرہ) بھی شریک ہوئے۔ یہ فورم اپنے رُکن ملک کے لیے خیر کا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ کیوں کہ نیکی اور بھلائی کرنا اس فورم کی سرشت میں ہی شامل نہیں ہے۔
آج پاکستان کی مقتدرہ نے مسلم اُمہ کے سامنے افغانستان کا المیہ پیش کیا ہے۔ جس دکھ، درد اور کرب و بلا کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہے۔ حال آںکہ جب استعمار اس ملکِ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ’’تورا بورا‘‘ بنا رہا تھا تو یہی دنیا چپ سادھ کر بے حسی سے بُت بنی ہوئی تماشہ دیکھتی رہی۔ کوئی بھی ملک طاغوت کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت نہیں رکھتا تھا۔ آج جب افغانستان کی تعمیرِنو کا قضیہ درپیش ہے توپاکستان نے ہمت کرکے مسلم اُمہ کا ضمیر، جو گہری نیند سویا ہوا تھا، جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یقینا یہ ایک جرأت مندانہ اور دلیرانہ قدم ہے، جسے بہت بڑا نام دیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے پیچھے پاک مقتدرہ کے اپنے مفاد ات بھی پنہاں ہیں۔
1980ء میںافغانی پنا ہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ وہ اور ان کی نسلیں آج پاک سرزمین پراپنے قدم جما چکی ہیں۔ ان کی اپنے ملک میں اخلاص سے واپسی کی کوئی کاوش نہیں ہوئی۔ بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ان کے نام پر پاک حکومتی اہل کار عالمی اداروں سے مستقل فنڈز وصول کررہے ہیں۔ امریکا نے افغانستان کو تورابورا بنایا تھا۔ چناںچہ اسی کی ذ مہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی تعمیرِنو کے لیے فنڈز فراہم کرے۔ امریکا کی برائن یونیورسٹی کی تحقیق کہتی ہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان پر 8 ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ اگر افغانستان کی سرزمین پر اتنی رقم خرچ کی گئی ہوتی تو یہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں سرِ فہرست ہوتا۔ امکان ہے کہ امریکا کی مقتدرہ نے افغانستان کے نام سے ایک اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے۔ حکومت کے بجٹ سے ہر سال ایک مخصوص رقم نکلتی رہی اور افغان اکاؤنٹ میں ڈالی جاتی رہی ہے۔
حقیقت میں امریکا نے افغانستان پر ایک دھیلا بھی خرچ نہیں کیا۔ امریکاکی مقتدرہ جیسے باقی دنیا کے ساتھ چکر بازی کررہی، اس کا یہی رویہ اپنی عوام کے ساتھ ہے۔ اسے چاہیے کہ مزید ایک سال کے لیے ایک ٹریلین امریکی ڈالر حقیقی معنوں میں افغانستان کے اکاؤنٹ میں ڈالتے رہیں۔ کیوں کہ وہ گزشتہ 40 سالوں سے افغانستان کا اسی مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ غلاموں میں سے اگر کسی نے ایسی حماقت کی تو اسے نہ جانے کس قسم کی سزا کا سامنا کرنا پڑے۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…