بین الاقوامی تجارت اور محصولات کی جنگ

فروری 18, 2025 - مہمان کالم
بین الاقوامی تجارت اور محصولات کی جنگ

بین الاقوامی تجارت اور محصولات کی جنگ

تحریر: سلمان فاروق، راولپنڈی

اب سے لگ بھگ 95 سال قبل سن 1929ء میں امریکی معیشت کو کساد بازاری کا سامنا تھا۔ بعد میں اس کساد بازاری نے عالمی صورتِ حال اختیار کی، جس کو دنیا ’’دی گریٹ ڈِپریشن‘‘ (The great depression)کے نام سے جانتی ہے۔ امریکی منڈیوں سے شروع ہونے والی اس کساد بازاری کی بنیادی وجہ فائنانشل سیکٹر یعنی مالیاتی شعبے کی بے ضابطگیاں اور سٹاک مارکیٹ میں غیر پیداواری سرمایہ کاری جیسے عوامل تھے۔کساد بازاری کے نتیجے میں امریکا میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ ایسے میں امریکی حکومت اپنی منڈیوں کو بیرونی تجارتی مسابقت سے بچانے کے لیے اقدامات پر غور کرتی ہے اور ایک سال بعد ہی یعنی سن 1930ء میں سموٹ ہیلی ٹیرف ایکٹ کے نام سے قانون سازی متعارف کرائی جاتی ہے، جس کے تحت 20 ہزار سے زائد اشیا کی درآمد پر محصولات‘ یعنی ٹیرف لاگو کیا جاتا ہے۔ ان محصولات کے نتیجے میں ایک جانب تو بین الاقوامی تجارت کو دھچکا پہنچتا ہے اور امریکی تجارت یعنی درآمدات اور برآمدات 67 فی صد کم ہو جاتی ہیں تو دوسری جانب منڈیوں کو بچانے کی خاطر لاگو کردہ محصولات کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا کساد بازاری سن 1941ء تک جاری رہتی ہے اور کچھ محققین کا یہ ماننا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کی ابتدا امریکا کی مقامی منڈی کی یہی کساد بازاری اور اس کے بعد کے اقدامات ہیں ، جن کے ذریعے امریکا نے اپنی منڈی کو محفوظ بنانے کی خاطر محصولات کی جنگ کا آغاز کیا۔ انھی اقدامات کی وجہ سے امریکا نے اپنی مقامی منڈی کو بین الاقوامی مسابقت سے تو محفوظ کرلیا، لیکن یورپ کی منڈیاں ‘ جن کی معیشت کا بڑا  دارومدار امریکا سے تجارت پر تھا، ان کو بھی کساد بازاری کا شکار کر دیا۔ یوں غربت اور بے روزگاری کے شکار یورپی عوام اپنے ہاں الٹرا نیشنل حکومتیں منتخب کر لیتے ہیں ، جو جنگِ عظیم دوم کی بنیاد رکھتے ہیں ۔ جرمنی میں ہٹلر کی نازی حکومت اور اٹلی میں مسولینی کی  فاشسٹ حکومت اسی دور کی پیداوار ہیں ۔

امریکی صدر فرینکلن روزیلٹ 1933 میں ’’فرسٹ نیو ڈیل‘‘ کے نام سے اور 1935 میں ’’سیکنڈ نیو ڈیل‘‘ کے نام سے اقدامات متعارف کرواتے ہیں ، جب کہ دوسری جنگِ عظیم کے نتیجے میں یورپی صنعت اور معیشت مکمل تباہی کا شکار ہو چکی ہے تو بریٹن ووڈز سسٹم(Bretton Woods System)کے تحت عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ وہی امریکا جو کچھ سال پہلے تک اپنی مقامی منڈی کے پیدا کردہ مُضِر اثرات کو ساری دنیا میں منتقل کر چکا تھا اور اپنی مقامی منڈی کو بچانے کے لیے قانون سازی کر رہا تھا، اب اکیلا ہی بھاگ کر پہلی پوزیشن حاصل کرنا چاہتا تھا۔

بریٹن ووڈز سسٹم کے تحت قائم کردہ مالیاتی اداروں ‘ یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے دنیا کی منڈیوں کو غلام بنائے رکھنا‘ اصل ہدف اور مقصد تھا۔ برٹن وڈز سسٹم نے ریاستوں کو منڈیوں میں اور عوام کو کنزیومر میں بدل دیا۔ کیپٹلسٹ اکانومی (سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت) میں رائج زر کی بنیاد پر قائم استحصالی معیشت کے لیے وسائل‘ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے ممالک سے حاصل کر کے اپنی انڈسٹری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے اجارہ داری کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کیوں کہ کیپٹل ازم کے طبعی داخلی رُحجانات کے ما تحت پیدا ہونے والے اثرات سے بچنا تبھی ممکن تھا، جب ان اثرات کو دوسرے ممالک کی منڈیوں پر منتقل کیا جا سکے، جیسا کہ سن 2008ء میں پیدا ہونے والے ریسیشن میں دیکھا گیا کہ امریکا کے ساتھ ساتھ یورپ کی معیشتیں بھی اس ریسیشن کی لپیٹ میں آگئیں ۔ زر کو غیر پیداواری عمل کے لیے سٹے کے رُحجانات کے تحت استعمال کرنا اور اس میں موجود خطرات کو ’’رِسک‘‘ کا نام دے کر اس کے تحت مراعات کا نظام تشکیل دے کر خود اِن مراعات سے مستفید ہونے کے نتیجے میں منڈی کساد بازاری کا شکار ہو جاتی ہے۔ پھر عوامی پیسے سے اس جوئے کی معیشت کو بازیاب کرایا جاتا ہے، جس کو ’’گورنمنٹ بیل آؤٹ‘‘ جیسے نام دیے جاتے ہیں ۔

امریکی معیشت کو اس سے پہلے کسی دوسری معیشت سے خطرہ لاحق نہیں ہوا تھا۔ کوئی ایسی معاشی طاقت موجود نہ تھی جو اقتصادی اور تجارتی میدان میں امریکا کے لیے چیلنج کھڑا کر سکتی۔ روس کی حربی قوت و صلاحیت کا مقابلہ امریکا نے سرد جنگ کے ذریعے کیا، لیکن اب کی بار امریکا کو معاشی،اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مقابلے کا سامنا ہے اور امریکا کے اقدامات یہ بتا رہے ہیں کہ ان چیلنجز کا مقابلہ امریکا اسی طرح کے اقدامات دُہرا کر کر رہا ہے، جیسا سن 1930ء کی دہائی میں کیے گئے تھے۔ آج بھی امریکا‘ چائنیز کمپنیوں پر محصولات عائد کر کے اور اپنی منڈیوں کو بند کر کے خود کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مئی 2024ء  میں امریکی صدر جو بائیڈن نے چائنیز الیکٹرک گاڑیوں کی درآمدات پر 100 فی صد محصولات عائد کی تھیں ۔ یہ محصولات اس لیے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں کہ چائنیز کمپنیاں ‘ امریکی کمپنیوں کے مقابلے پر 50 فی صد کم قیمت پر بہتر کوالٹی کی الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اس سے پہلے بھی چائنیز کمپنیوں پر محصولات عائد کی گئیں ، لیکن وہ محصولات را مٹیریل(raw metrial)جیسے سٹیل وغیرہ پر ہوا کرتی تھیں ، لیکن اب کی بار معاملہ مختلف ہے۔ اور تو اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق محصولات کی شرح بڑھانے کی نہ صرف ضرورت ہے، بلکہ ان اشیا میں بھی اضافہ کرنا ضروری ہے، جن پر محصولات عائد کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے یورپ کی کمپنیوں پر بھی محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔

امریکی بین الاقوامی سرمایہ داری نظام اپنی منڈی کے تحفظ کے لیے سرگرم ہے، لیکن اب کی بار سن 1930ء والے حالات نہیں ہیں ۔ معاشی اور تجارتی میدان میں مسابقت کرنے والے دوسرے فریق موجود ہیں اور امریکا اپنے ہی قائم کردہ بریٹن ووڈز سسٹم سے دست بردار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں