عَنْ اَوْسِ بْنِ شُرَحْبِیْلؓ؛ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: ’’مَنْ مَّشٰی مَعَ ظَالِمٍ لِیُقَوِّیَہٗ، وَ ھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہٗ ظَالِمٌ، فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْاِسْلَامِ‘‘۔ (مشکوۃ: 5135)
(حضرت اوس بن شرحبیلؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص ظالم کے ساتھ چلتا ہے، تاکہ وہ اس کو تقویت پہنچائے، حال آں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے۔ ایسا شخص اسلام سے خارج ہوجاتا ہے‘‘۔)
دینِ اسلام کے احکامات میں سے ایک اہم ترین حکم نظامِ عدل کا قیام اور ظلم کی روک تھام ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں‘ جو عدل قائم کرتے اور ظلم کو ختم کرتے ہیں۔ حق دار کو حق دینا، عدل کہلاتا ہے۔ مؤمن کو حکم ہے کہ وہ زندگی کی ہر سطح پر عدل کے تقاضے پورے کرے۔ اپنی جان کا تحفظ کرنا، ماں باپ، بیوی بچوں، اعزہ و اقربا، ہمسائیوں اور معاشرتی عدل و انصاف کے قیام کے لیے عدل کرنے والی قوتوں کی حمایت کرنا، عدل کرنے والے انسان کی پہچان ہے۔ عادل انسان اللہ کو بہت محبوب ہے۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’یومِ محشر کہ جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا، تو اس دن اللہ تعالیٰ سات لوگوں کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دیں گے۔ ان میں سے پہلا شخص عدل کرنے والا امام (حکمران) ہوگا‘‘۔ (رواہ البخاری) اس بنا پر عدل انسانی اعمال میں سے ایک ایسا عمل ہے جو اسے اللہ کا مقرب اور مغفرت کا مستحق بنا دیتا ہے۔ جہنم سے چھٹکارے اور جنت کا حق دار بنا دیتا ہے۔ یہ ایسی خوبی ہے جو بے شمار اچھائیوںکی بنیاد اور بے شماربرائیوں کو روکنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
جب کہ ظلم کا معنی ہے کسی کا حق مار کر اس کو اس کے حق سے محروم کردینا۔ یہ عمل کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اللہ کو بہت ناپسند ہے۔ زیرنظر حدیث میں رسول اللہؐ فرمارہے ہیں کہ جو شخص ظلم کا حامی ہے اور ظالم کو تقویت دینے کے لیے اس کی حمایت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اسے اسلام سے خارج کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی اسلام ہی سے خارج ہوگیا تو پھر اس میں اسلام کی دیگر خوبیوں کی پرورش کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ قرآن حکیم نے جن حکمرانوں کو دُنیاوی زندگی میں قابلِ مذمت قرار دیا ہے، ان کا بنیادی جرم مخلوقِ خدا پہ ظلم ڈھانا تھا۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی ظلم کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدات آئی ہیں۔ عوام کو معاشی و سیاسی طبقات میں بانٹنا، ظالم ریاستوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ اسے قرآن حکیم نے فرعون، نمرود اور ان جیسے ظالم حکمرانوں کا وصف قرار دیا ہے۔ ان کے مقابلے پر اولوالعزم پیغمبروں کے عادلانہ کردار کا ذکر کیا ہے۔ اَب انسان کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے فرعونوں کا حامی بننا ہے یا پیغمبروں کی راہ اپنانی ہے۔
حاصل یہ کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمان عدل کرنے والا اور ظلم سے دور رہنے والا ہو۔ اور ظلم پسند قوتوں کے مقابلے پر سینہ سپر ہوکر ان کا مقابلہ کرنے والا ہو۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…