نئی عالمی تشکیل کے خد و خال

مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان
جون 05, 2020 - عالمی
نئی عالمی تشکیل کے خد و خال

کئی صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بڑا بحران دنیا کو نیاعالمی نظام نافذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن اگر نئے عالمی نظام کی تیاری میں تاخیر ہو تو بین الاقوامی قیادت یا اس کا مرکز لازمی طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔ کسادِ عظیم کا آغاز ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 29؍ اکتوبر 1929ء کو بازارِ حصص کے ٹوٹنے سے ہوا تھا۔ وہ منگل کا دن تھا۔ امریکا میں اسی مناسبت سے اسے سیاہ منگل کہا جانے لگا۔ فیڈرل ریزرو آف امریکا کے سابق  چیئرمین ایلن گرین اسپان کا کہنا ہے: ’’بہت زیادہ کاغذی کرنسی چھاپ کر ’’فیڈ‘‘ کامیاب ہوگیا۔ کیوںکہ اس نے برطانیہ سے امریکا کی طرف سونے کے بہائو کو روک دیا تھا، مگر اس کارروائی میں اس نے دنیا بھر کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ بہت زیادہ کرنسی مارکیٹ میں چھوڑنے پر اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ بازی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس کے بعد فیڈ نے جب رقم دینا بند کردی تو سٹہ بازی تو قابو میں آگئی لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ 1929ء تک اسٹاک کا بلبلا بہت پھول چکا تھا اور اچانک رقم کی فراہمی بند ہونے سے بزنس پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ نتیجے میں امریکی معیشت بیٹھ گئی۔ برطانیہ کو زیادہ نقصان ہوا۔ اس نے اپنی پرانی غلطی یعنی شرح سود کم نہ کرنے کی تلافی کرنے کے بجائے 1931ء میں گولڈ اسٹینڈرڈ بالکل ترک کردیا۔ اعتماد کا نازک پارچہ پھٹ گیا۔ دنیا بھر کے بینک فیل ہوگئے۔ اس طرح عالمی معیشت 1930ء کے کسادِ عظیم کاشکار ہوگئی۔‘‘(گولڈ اینڈ اکنامک فریڈم"Gold and Economic Freedom" از ایلن گرین اسپان (چیئرمین فیڈ )، طبع: 1967ء)
حالیہ وبا نے اقتصادی اور سلامتی کے دونوں عالمی ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ وبا کے ختم ہوتے ہی دنیا درجِ ذیل مسائل کا شکار ہو جائے گی: پہلی مزاحمت انفرادی سطح پر ملکی معیشت کی صورت میں نظر آئے گی۔ مضبوط اقتصادیات کے حاملین اس دھچکے کو برداشت کرلیں گے، جب کہ کمزور معیشت کے پاس مزید کھونے کے لیے کچھ باقی نہیں بچے گا۔ دوسرا مزاحمتی پہلو سماجی و انفرادی نفسیات کا دائرہ ہوگا۔ افراتفری اور کشمکش کا شکار ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافہ سماجی رویوں پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ لہٰذا قومی سماجی مزاحمت رکھنے والے معاشرے کم سے کم نقصانات سے دوچار ہوں گے۔ تیسرا پہلو حکومتوں کے حوالے سے سامنے آئے گا۔ بروقت مؤثر حکمتِ عملی کی حامل حکومتیں کامیابی سے ہم کنار ہوجائیں گی، جب کہ کمزور ریاستوں کے مزید لاغر ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس وبا کے اختتام پر ہم سب کو ملبے کا ایک ڈھیر ملے گا، جو کسی نئے عالمی نظام کے قیام کے لیے زمین ہموار کرے گا۔ 
مشرقِ وسطیٰ بالخصوص خلیجی ریاستیں ایشیائی محنت کشوں کے مراکز ہیں، لیکن اس وبا نے یہاں بھی تباہی پھیلا رکھی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی دلدل میں پھنسے محنت کش پہلے ہی نہ ختم ہونے والے مسائل کا شکار تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا پہیہ جام ہونے کے باعث چھوٹے موٹے سرمایہ دار تو 2019ء کے اختتام کے ساتھ ہی بچا کھچا سرمایہ نکال کر اپنے ملکوں کی راہ لے چکے ہیں۔ اپنے محنت کشوں کو بے آسرا چھوڑ کر خود کو قرنطینہ میں چھپا لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یورپ کو شدید دھچکے کا سامنا ہے۔ اٹلی یورو زون کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ یورپین یونین نے سوائے 25 بلین یورو کے فنڈ قائم کرنے کے اَور کچھ نہیں کیا۔ اٹلی کے صدر نے یورپین یونین کے رویے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹلی کو یورپ سے زیادہ تو چین سے امداد آرہی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب بین الاقوامی یک جہتی اور تعاون کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، یورپی ریاستوں نے مشکل کی اس گھڑی میں نہ صرف اپنی سرحدیں بند کرلی ہیں، بلکہ مالی امدا د کے تمام راستے بھی مسدود کردیے ہیں۔ اسی کرۂ ارض پر چین بھی آباد ہے، جس کی پالیسی ہے کہ اس کا خواب صرف چینی عوام کے لیے نہیں، بلکہ دوسری اقوام کے لیے بھی اتنا ہی فائدہ مند ہوگا۔ ’’ایک سڑک اور ایک پٹی‘‘ (one road one belt) کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ 
وو ہان کے کامیاب تجربے کے چھ نکات کو چین کی خواہش ہے کہ دوسرے ممالک بھی اپنائیں:

1۔ اطلاع فوراً جاری کی جائے۔

2۔ سماجی فاصلہ اور ٹریفک کنٹرول۔

3۔ عام لوگوں کی جانچ پڑتال، اسکریننگ ٹیسٹ۔

4۔ علاج کے منصوبے اور تحقیق۔

5۔ وسائل کی تخصیص اور یقینی فراہمی۔

6۔ مرکزی کمانڈ سسٹم اور حساس حکمتِ عملی۔

چین کا ایک میڈیا تھنک ٹینک ہر روز 60 ماہرین کے انٹرویو نشر کرتا ہے، جن میں چینیوں کے علاوہ بین الاقوامی طبی ماہرین بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان خطوط اور پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد سے ہی 30 دنوں میں چین کو سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔ اس کامیابی کے بعد چینی صدر، کمیونسٹ پارٹی اور حکام آرام سے نہیں بیٹھ گئے، بلکہ اب غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مختلف علاقوں کے دورے کر رہے ہیں۔ پالیسی یہ ہے کہ صنعتی پیداوار اپنی جگہ اہم ہے، لیکن انسانی صحت سب سے مقدم رہے گی۔ 
ان حالات میں یہ تأثر اُبھر کر سامنے آرہا کہ اب امریکا سپر پاور نہیں رہے گا۔ کیوںکہ امریکی صدر ٹرمپ اس وبا کے بحران میں ایک عالمی لیڈر تو کجا، ایک اچھا مقامی سربراہ ہونے کا بھی ثبوت نہ دے سکا۔ حال ہی میں G-20 کا غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں منعقد ہوا۔ دنیا کے بیس امیر ترین ممالک کے سربراہوں نے دو روز یعنی 26تا 27 مارچ تک آج کے سلگتے ہوئے کرونا کے مسئلے پر غور و خوض کیا۔ چین نے اجلاس میں چار تجاویز پیش کی ہیں:

1۔ کورونا کے خلاف جنگ کا پختہ عزم۔

2۔ علاج اور کنٹرول کے لیے اجتماعی اقدامات۔

3۔ مقامی تنظیموں کی بھرپور مدد۔

4۔ بین الاقوامی سطح پر اقتصادی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور کامیاب میڈیکل ڈپلومیسی کے لیے یہ پیغام کہ سائنس دانوں اور سفارت کاروں کے درمیان فعال شراکت سے عالَم گیر سائنس عوام کے مفاد میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ گزشتہ صدی کے واقعات پر نظر ڈالیں؛ عظیم کساد بازاری، عالمی جنگیں، مشرقِ وسطیٰ کی تباہی‘ سب کا ذمہ دار متحدہ امریکا اور اس کی معاون یورپی اور ایشیائی طاقتیں تھیں۔ انسانیت کے قتل کابھاری بھرکم بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھائے وہ اگلی صدی میں کیسے داخل ہوسکتا ہے؟ کیوںکہ یہ بوجھ نہ صرف اس کی کمر توڑ دے گا، بلکہ قیادت کا تاج بھی اس سے چھین لے گا۔ ایشیائی قوتوں کا طاقت ور بلاک اس کی جگہ لیتا ہوا نظر آرہا ہے، کیوںکہ مسئلے کے تدارُک کے لیے یہی بلاک چارہ گری کے اقدامات اٹھا رہا ہے۔ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان

مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات  حاضرہ پر  مضامین لکھ رہے ہیں۔