آپؓ کا نام: بلال، کنیت:ابوعبداللہ، والد کا نام رباح اوروالدہ کانام حمامہ تھا۔ آپؓ حبشی نژاد غلام تھے۔ آپؓ مکہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت بلالؓ مؤذنین کے سرخیل، قدیم الاسلام، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گہرے دوست اور اصحابِ صفہ میں سے تھے۔ آپؓ ظاہری شکل کے لحاظ سے ایک سیاہ فام حبشی تھے۔ آئینۂ دل شفاف تھا۔ اس کو نورِ ایمان نے اس وقت منور کیا، جب کہ معدودے چند بزرگوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ اسلام پر لبیک کہا تھا۔ اسلام لانے کی پاداش میں آپؓ کو تپتی ہوئی ریت، جلتے ہوئے سنگ ریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تاکہ وہ اپنی رائے بدلیں، لیکن ان تمام روح فرسا آزمائشوں کے باوجود آپؓ نے توحید و آزادیٔ رائے کی مضبوط رسی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ایک روز حضرت بلالؓ حسبِ معمول مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اس طرف سے گزرے اور یہ عبرت ناک منظر دیکھ کر آپؓ کا دل بھر آیا۔ آپؓ نے ایک گراں قدر رقم معاوضے میں دے کر حضرت بلالؓ کو آزاد کردیا۔ آں حضرت ﷺ نے جب یہ سنا تو فرمایا: ’’ابوبکر! تم مجھے اس میں شریک کرلو‘‘، عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آزاد کراچکا ہوں۔ حضرت جابر ؓسے مروی ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ فرمایا کرتے تھے: ’’ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انھوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا‘‘۔
حضرت بلالؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے ان کے اور عبیدہ بن حارث مطلبیؓ کے درمیان یا ایک روایت میں ابو عبیدہ بن الجراح کے درمیان مواخات کرائی۔ حضرت بلالؓ سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔ آپؓ کی آواز نہایت بلند وبالا اور دِل کش تھی۔ وہ فصیح و بلیغ تھے۔ ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں کو بے چین کردیتی تھی۔ لوگ اپنے کام چھوڑ کروالہانہ وارفتگی کے ساتھ ان کے ارد گرد جمع ہوجاتے۔
حضرت بلالؓ سفروحضر میں ہر موقع پر رسول اللہؐ کے مؤذنِ خاص، آپؐکے اہل و عیال کے نان و نفقہ کے نگران اور آپؐ کے خزانچی تھے۔ عیدین و استسقا کی نمازوں میں بلالؓ آپؐ کے آگے لاٹھی لے کر چلتے ۔ راستہ میں کوئی پتھر ہوتا تو اس کو لاٹھی سے ہٹا دیتے۔ سامنے سے آنے والوں پر نظر رکھتے، تاکہ کہیں سامنے سے کوئی دشمن نہ آجائے اور آپؐ کوکوئی تکلیف پہنچے۔ حضرت بلالؓ غزوات بدر، اُحد، خندق اور تمام مشاہد میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر رہے۔ فتح مکہ پر آپؐنے حضرت بلالؓ کو کعبۃ اللہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا تاکہ سابقہ ظالمانہ طبقاتی نظام کی شکست اور کمزور پسے ہوئے طبقوں کی عزت اور قانونِ الٰہی کی بلندی کا اظہار ہو۔ گویا حضرت بلالؓ مظلوم عوام کی ترقی اور عزت کا استعارہ بن گئے۔ حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت بلالؓ جہاد کے لیے شام کے محاذ پر گئے اور پھر وہیں قیام پذیر ہوگئے۔ آپؓ دمشق میں 60 سال سے زائد عمر میں سن۲۰ھ میں عہد ِفاروقی میں فوت ہوئے۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
یورپ میں بنواُمیہ کی فتوحات اور علوم و فنون کی ترقی
تاریخ میں بنواُمیہ کا دورِ حکومت سیاسی اور دینی وحدت کے اعتبار سے سنہری اور فتوحات کا دور تھا۔ اُموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں موسیٰ بن نُصَیرافریقا کے گورنر تھے۔ طارق…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
بنواُمیہ اَندلُس میں
عبدالرحمن الداخل نے اندلس پر نہ صرف عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، بلکہ ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو قرونِ وسطیٰ میں دنیا کی معیاری تہذیب کی حیثیت سے تسلیم کی …
اَندلُس کے علما و سائنس دان ؛شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ
بارہویں صدی عیسوی کے عبقری انسان، عظیم فلسفی، مفکر، محقق، صوفی، علوم کا بحرِ ناپیدا کنار، روحانی و عرفانی نظامِ شمسی کے مدار، اسلامی تصوف میں ’’شیخِ اکبر‘…