معاشی خودمختاری کی حقیقت

محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف
ستمبر 01, 2020 - معاشیات
معاشی خودمختاری کی حقیقت


 چین اور امریکا کے درمیان تجارتی مخاصمت ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد امریکا کی عالمی مالیاتی نظام پر گرفت کے ڈھیلے پڑنے کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ صرف روس اور چین کے درمیان ڈالر کی جگہ مقامی کرنسیوں میں تجارت کاحجم بڑھ کر 50 فی صد ہوچکا ہے، جو 2016ء میں 19 فی فیصد تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کے دیگر ممالک سے مقامی کرنسیوں کی بنیاد پر تجارتی روابط دراصل ڈالر اور اس سے متعلق عالمی مالیاتی اداروں کی اجارہ داری کو کھلا چیلنج ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی پاکستان اور چین کے مابین مقامی کرنسیوں میں تجارت کا معاہدہ بھی ہے اور دو ارب ڈالر تک کی پاکستانی مصنوعات کی چین درآمد پر ڈیوٹیاں کم یا معاف کردی گئی ہیں۔ CPEC کو کون نہیں جانتا، جس کے تحت 46 ارب ڈالر پاکستان کو قرض کی صورت میں ملیں گے۔ ایران کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 400 ارب ڈالر کا معاہدہ، بنگلادیش سے 97 فی صد تجارت پر درآمدی ڈیوٹیوں کو ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جن کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے کہ چین کا اقدام اور نصب العین دراصل دنیا کو ایک متبادل قوت سے روشناس کرانا ہے۔ یقینا اس مقصد کا حصول اتنا آسان نہیں اور یہ صرف معاشی میدان میں برتری سے ممکن نہیں۔
چناںچہ وہ خطے جہاں چین بہ تدریج اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے، وہاں دیگر عالمی طاقتیں علاقائی جتھے بندیوں کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کو اب چین اور امریکا کے درمیان کسی ایک کے بلاک میں جانا ہوگا۔ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ پاکستان ایک طویل عرصے تک برطانوی اور امریکی اثر کے تحت خطّے میں کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اسی تناظر میں ہمیں معاشی فائدے دیے گئے۔ ہماری فوجی اور سول بیوروکریسی کی تربیت اُسی اثر کے مطابق پروان چڑھی۔ امداد ہو، تجارت ہو، یا سرمایہ کاری، سب مَدّات میں ہم نے اپنے مغربی آقاؤں کو اپنے ساتھ پایا اور اس غلامی میں مزید سہولت کے لیے ہمارے آقا کے عظیم غلام سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہماری ہر قسم کی معاونت کے لیے موجود رہے۔ اب اچانک یہ کہنا کہ پاکستان اپنا بلاک بدل رہا ہے، کچھ قبل از وقت لگ رہا ہے۔ یاد رہے پاکستان کے کُل بیرونی قرض کا 80 فی صد ہمارے مغربی اور وسط ایشیائی محسنوں (؟!) کے مرہونِ منت ہے۔ اب چین پاکستان کو اپنے بلاک میں لانے کے لیے یہ سارا قرض تو ادا نہیں کرے گا۔ اس وقت پاکستان کی حالت کچھ یوں ہے، جیسے کسی بچے کے ماں باپ میلے میں کھو گئے ہوں اور دیکھنے والے یہ کہیں کہ یہ اپنا راستہ خود ڈھونڈ لے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ امید ہے آقا پھر سے ہاتھ تھام لیں گے۔

بلاک کی تبدیلی ممکن ہے، لیکن یہ ایک طویل مدتی عمل ہے، جس میں خصوصاً پالیسی کا تسلسل ضروری ہے، جو ہمارے سیاسی منظر نامے میں کافی مشکل کام ہے۔ فوج کی صورت میں اس تسلسل کا حصول ہر گزرتے دن کے ساتھ محال ہوتا جارہا ہے۔ تاریخی حقائق ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ کمان کی تبدیلی ممکن ہے، جو اس تسلسل کو متأثر کردے۔ خودمختاری کے لیے ضروری ہے کہ مستقل تبدیلی کے لیے جماعتی بنیادوں پر جدوجہد کی جائے اور وقت کی ضرورت، یعنی قومی خودمختاری کی پالیسی میں تسلسل لایا جائے۔

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف

محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA  اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔