مولانا عبیداللہ سندھیؒ ہمارے مطلع تاریخ کا ایک روشن ستارہ ہیں۔ ان عالی ہمت بزرگوں کا کردار آج کی نسلوں کے لیے مَشعَلِ راہ ہے۔ جمیل مہدی کی کتاب ’’افکار و عزائم‘‘ سے حضرت سندھیؒ کی زندگی کا ایک نادر واقعہ ہم قارئینِ ’’رحیمیہ‘‘ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ جمیل مہدی نے ایک ایسے خانوادے میں آنکھ کھولی جو جدوجہدِ آزادی میں دل وجان سے شریک تھا۔ ان کے والدِ محترم مہدی حسنؒ ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ سے وابستہ تھے اور اس تحریک کے قائد شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے خاص رُفقا میں تھے۔ جمیل مہدی کو لڑکپن میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور مولانا سیّد حسین احمد مدنیؒ جیسی عظیم المرتبت شخصیتوں کے قریب رہنے اور ان سے کسبِ فیض کا بھی موقع ملا۔ درجِ ذیل واقعہ بھی انھوں نے مولانا عبیداللہ سندھیؒ سے اپنی رفاقتِ سفر کی یادداشت سے پیش کیا ہے۔ مدیر)
’’سردی کی ایک شام بلکہ رات کو، کیوں کہ 7 بجے رات ہی ہو جاتی ہے۔ ہم دو آدمی؛ ازہرشاہ قیصر مرحوم اور میں لاہور جانے کے لیے دیوبند کے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں ہم نے مولانا (عبیداللہ) سندھیؒ کو پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے دیکھا۔
میں نے سلام کیا تو وہ اس طرح خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگے، جیسے پہچانتے تک نہیں۔ ان کی بے نیازی اَجنبیت سے مجھے اتنا صدمہ پہنچا کہ میں آگے بڑھ گیا۔ اِدھراُدھر دھیان بٹانے کی کوشش کی، لیکن آزردگی دُور نہیں ہوئی۔ میں نے چور نظروں سے دیکھا تو وہ پلیٹ فارم کے اِس سِرے سے اُس سِرے تک ٹہل رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ گھنٹی بج گئی، جو ٹرین کے قریب ترین اسٹیشن سے چھوٹنے کے بعد بجتی ہے۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ پلیٹ فارم کے باہر چلے گئے، لیکن دو تین منٹ بعد میں نے دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہیں۔ اس بار وہ سیدھے ہماری طرف آئے اور پوچھا: ’’کہاں جار ہے ہو؟‘‘ میری آزردگی اس وقت تک باقی تھی، میں نے بے رُخی سے کہا: لاہور جارہے ہیں۔’’ کتنے پیسے ہیں تمھارے پاس؟‘‘ 52 روپیہ ہیں۔ میں نے مختصراً جواب میں کہا۔ ’’ایک ٹکٹ لاہور کا اَور لے آؤ!‘‘ میں بھاگ کر ٹکٹ لے آیا تو انھوں نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ٹکٹ لے آئے یا نہیں؟ بلکہ اب وہ بہ دستور مخدوم اور میں خادم بن گیا۔
’’یہ بستر اٹھاؤ ، اسے یہاں رکھو، یہاں بیٹھو!‘‘ ریل چل پڑی تو انھوں نے بڑی گہری نظر سے مجھے دیکھ کر کہا: ’’بُرا مان گیا تُو؟‘‘ اس کے بعد کہنے لگے کہ: ’’مجھے لاہور جانا تھا، لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے، اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ایک آنہ دے کر تا نگے میں اسٹیشن آجاتا، لیکن لاہور تو مجھے جانا تھا، میں نے خطوط لکھ دیے تھے کہ میں اسی ریل سے آ رہا ہوں، اس لیے میں نے بستر کندھے پر رکھا اور اسٹیشن آگیا۔ انقلابیوں کا کوئی کام پیسے کی وجہ سے نہیں رُکتا۔ میرے سامنے سوال ہی نہیں تھا کہ پیسے ہیں یا نہیں ہیں، یہ بات طے شدہ تھی کہ مجھے اس گاڑی سے جانا ہے۔ اس لئے میں اسٹیشن پر چلا آیا۔ اور اس تلاش میں رہا کہ کوئی جانکار ملے تو اس سے ٹکٹ منگوالوں، لیکن پلیٹ فارم پر اِس سِرے سے اُس سِرے تک ڈھونڈنے کے باوجود کوئی واقف کار نظر نہیں آیا، یہاں تک کہ گھنٹی بج گئی تومیں پلیٹ فارم سے باہر جا کر بھی دیکھ آیا۔ کوئی نہ ملا تو مجبوراً تجھ سے ہی ٹکٹ لانے کو کہا۔ کافی دیر تک پس و پیش میں رہا کہ تجھ سے کہوں یا نہ کہوں۔ اور یہ بھی سوچتا تھا کہ تیرے پاس پیسے ہوں گے بھی یا نہیں ہوں گے‘‘۔
میری عمر ہی کیا تھی، یہ غالباً 1941ء کی بات ہے، لیکن اتنی بات تو جانتا ہی تھا کہ اس بے سرو سامانی کی بات وہ کر رہا ہے،جو ہندوستان کی جلا وطن حکومت کا وزیرِ داخلہ رہ چکا ہے، جو افغانستان میں وزیرِ خارجہ اور ترکی میں افغانستان کا سفیر تھا، اور جو رُوس میں اشتراکی لیڈروں کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہ چکا تھا۔ لیکن اب وہ کہہ رہا تھا کہ: اس نے بستر کندھے پر رکھا اور اسٹیشن آگیا۔ کیوں کہ اصل مسئلہ لاہور پہنچنے کا تھا۔ یہ کوئی بات ہی نہ تھی کہ پیسے ہیں یا نہیں ہیں۔ لیکن ابھی حیرانی ختم کہاں ہوئی تھی، کیوں کہ اصل حیرانی تو اس وقت شروع ہوئی جب سہارن پور کا اسٹیشن گزر تے ہی ہر اسٹیشن پر ملاقاتی ملنے شروع ہوئے اور چھوٹے سے چھوٹے اسٹیشن پر بھی ایک ہجوم پہلے سے منتظر دکھائی دیا، جو مولانا سندھیؒ کا نعرہ بھی کبھی کبھار لگا دیتا۔ اسی میل ملاقات کے درمیان انبالہ کا اسٹیشن آیا تو وہاں غیر معمولی مجمع تھا اور اس مجمع میں سب سے ممتاز شخصیت ’نواب غلام بھیک نیرنگ‘ کی تھی، جنھوں نے مولاناؒ سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک پتلا لفافہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انھوں نے اسے بائیں ہاتھ دوسری اور تیسری اُنگلی کے درمیان پکڑ لیا۔ اور جالندھر تک تو مجھے یاد ہے کہ وہ اس لفافے کو اسی طرح پکڑے رہے اور اس درمیان ہر اسٹیشن پر لوگ ان سے ملنے اور ان کا استقبال کرنے کے لیے آتے رہے۔ اس کے بعد نیند آگئی، اس لیے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا، لیکن اتنا یاد ہے کہ صبح سویرے لاہور اسٹیشن آیا تو وہ لفافہ اسی طرح ان کی انگلیوں میں پھنسا ہوا تھا۔
اسٹیشن پر ان کے استقبال کرنے والوں کا سب سے بڑا ہجوم تھا، جن لوگوں کی صورتیں اب تک یاد ہیں، ان میں میاں افتخار الدین، غلام رسول مہر، عبد المجید سالک، مولانا ظفر علی خاں، ان کے صاحبزاد ے اختر علی خان، شیخ حسام الدین، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا داؤ د غزنوی، شورش کشمیری اور درجنوں دوسرے لوگ تھے۔ اتنا ہجوم تھا کہ بیسیوں آدمی ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے۔ یہاں تک کہ خود انھوں نے ہی اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا: ’’دو لڑکے ہمارے ساتھ تھے!‘‘ جی ہم یہاں ہیں! ازہرشاہ قیصر نے کہا۔ اس آواز پر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو لوگوں نے اِدھراُدھر دب کر راستہ بنا دیا۔ ہم قریب پہنچے تو انھوں نے وہ لفافہ میری طرف بڑھایا: ’’دیکھو اس میں کیا ہے؟‘‘ میں نے دیکھ کر کہا اس میں نوٹ ہیں۔ سو (100) سو (100) روپے کے پانچ نوٹ ہیں۔
’’رکھو!‘‘ جی جی، میں گھبرا گیا، یہ آپ رکھیے، یہ بہت زیادہ ہیں۔ ’’ہم گولی ماردیں گے‘‘۔ انھیں واقعی جلال آگیا۔ بچہ ہے! کئی آدمیوں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ ’’بچہ نہیں، کوڑ مغز ہے۔ بے ادب، سارے راستے سمجھاتا آیا ہوں کہ بڑوں کا حکم بے چوں و چرا مان لینا چاہیے۔ ساری تعلیم بے کار گئی۔ پہلا ہی اثر حکم عدولی کی صورت میں ظاہر ہوا‘‘۔ میں دم بخود کھڑا رہ گیا۔ وہ تو ’انقلاب زندہ باد‘، ’مولانا سندھی زندہ باد‘ کے نعروں کی گونج میں رخصت ہو گئے اور مجھے زندگی بھر کے لیے سبق دے گئے۔
’’انقلابیوں کا کوئی کام پیسے کی وجہ سے نہیں رُکتا۔ اصل کام یہ ہے کہ مجھے لاہور جانا ہے‘‘۔ اور وہ لاہور اس طرح پہنچے کہ ان کے پاس تانگے کے لیے بھی ایک آنہ نہیں تھا۔ لیکن سارے راستے بادشاہوں کی طرح استقبال ہوا۔ راستے میں پیسہ ملا تو اس آدمی نے یہ تک نہیں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں سو (100) سو (100) کے نوٹ ہیں‘ یا ردّی کاغذ ہیں۔ اور جب معلوم ہوا تو اس خطیر رقم کو ردّی کاغذوں کے پُرزوں کی طرح اس لڑکے کے ہاتھ میں دے کر رُخصت ہو گیا، جس نے اس کے لیے پانچ روپیہ کا لاہور تک کا ٹکٹ خرید لیا تھا۔ جس زمانے میں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے، اس زمانے میں پانچ سو روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن 45 برس پہلے کے جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس زمانے میں سو (100) کے نوٹ کی اتنی بڑی قیمت تھی کہ اس کے بھنانے والے کو دستخط کر نے پڑتے تھے۔ بس وہ دن ہے اور آج کا دن! روپیہ پیسے کی پرواہ کبھی نہیں ہوئی۔ جو کام چاہا کرلیا، جتنا بڑا کام چاہا، اس میں ہاتھ ڈال دیا۔ کبھی بھول کر بھی خیال نہیں آیا کہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔
(افکارو عزائم، از جمیل مہدی، مرتبہ ڈاکٹر ذکی کاکوری، ص: 19 تا 23، ناشر: آل انڈیا میر اکادمی، لکھنؤ)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
حضرت مولانا ابو حامد محمدمیاں منصورانصاریؒ
تحریکِ ریشمی رومال کے قائدین میں ایک اہم ترین نام حضرت مولانا محمد میاں منصور انصاریؒ کا بھی ہے، جنھوں نے اس تاریخی تحریک میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ مولانا انصاریؒ 10؍مارچ …
حضرت مولاناعبداللہ لغاریؒ
امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے قریبی ساتھیوں میں ایک اہم نام حضرت مولانا عبد اللہ لغاریؒ کا بھی ہے۔ ان کا تعلق ضلع گھوٹکی (صوبہ سندھ) کے ایک گائوں ’’دا…
حضرت مولانا شیخ بشیر احمد لدھیانویؒ
امامِ انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے شاگردوں میں ایک نمایاں نام مولانا بشیراحمد لدھیانویؒ کا بھی ہے، جو حضرت سندھیؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بڑی ذمہ داری سے کام …
حضرت مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ
ولی اللّٰہی تحریک میں ایک اور اہم نام حضرت مولانا ذوالفقارعلی دیوبندیؒ کا ہے۔ آپؒ۱۲۲۸ھ / 1813ء کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد گرامی کا نام شیخ فتح علی تھا۔ وہ اپنے علاق…