کیپٹل اِزم کی بقا منافع کی نئی راہیں تلاش کرنے پر منحصر ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران عالمی سطح پر کساد بازاری، افراطِ زر یا تفریطِ زر پیدا ہونے کا موجب بھی کیپٹل اِزم ہے۔ دنیا کو ڈیڑھ برس سے کورونا کے باعث ایک عالمی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران کے دوران بین الاقوامی اداروں نے انسانی جان کے تحفظ کا نام لے کر عام آدمی کی زندگیوں کو اجیرن کیا ہے۔ چناںچہ کورونا وائرس سے متعلق میڈیا کے بطن سے ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دیا گیا اور پھر اس بیانیے کو عالمی سطح پر رائج کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(W.H.O)کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے متأثرہ افراد کی ہلاکت کی شرح 0.23 فی صد ہے، یعنی 99.77 فی صد متاثرہ افراد محفوظ ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وائرس کا خوف مسلط کرنے کے لیے عالمی سطح پر ’’ون وائس میڈیا‘‘ کا استعمال کیا گیا اور وائرس سے متعلقہ تشکیل کردہ پیغام اور خبروں کو ادارتی پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔
چناںچہ اس کے لیے میڈیا کے توسط سے ایجنڈا سیٹنگ اور پولیٹیکل اکانومی آف کمیونیکیشن تھیوریز کا استعمال ہوا۔ گویا وَن وائس میڈیا کے تحت چار عناصر پر مبنی ایڈیٹوریل پالیسی کا نفاذ ہوا: اوّل: وبائی مرض سے پوری انسانیت کی بقا کو خطرہ ہے۔ دوم: وائرس زدہ افراد کا کوئی علاج نہیں ہے۔ سوئم: عالمی سطح پر انسانوں کو محفوظ کرنا ناگزیر ہے۔ چہارم: اس وائرس سے بچاؤ صرف ویکسینیشن میں ہی پنہاں ہے۔ ان چار پہلوؤں پر ہر فرد کی رائے سازی کا ہدف مین سٹریم میڈیا کو سونپا گیا۔اب ہمیں میڈیا کے آپریشنل اصولوں کی بنیاد پر اس پراپیگنڈا تکنیک کو سمجھنا ہے۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے قبل، جولائی 2019 ء میں برطانیہ اور کینیڈا کے اشتراک سے گلوبل کانفرنس آن میڈیا فریڈم کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹونی ہال نے اپنے خطاب میں کہا:
’’گزشتہ مہینے بی بی سی کے تحت ایک اہم (خفیہ) اجلاس ہوا، جس میں عالمی ٹیک کمپنیوں اور خبروں کے اشاعتی اداروں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ’’ٹرسٹیڈ نیوز سمٹ‘‘ نامی اس اجلاس کا مقصد تعصب اور غلط خبروں پر مبنی معلومات کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے کے لیے پلان آف ایکشن تیار کرنا تھا۔ چناں چہ ہم (بی بی سی) نے خبروں کی سا لمیت کے لیے ایک نیا عالمی اتحاد تشکیل دیا ہے اور ہم دنیا بھر میں آزادی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے مزید کام کرنے کو تیار ہیں‘‘۔
یورپی براڈکاسٹنگ یونین (ای بی یو)، فیس بک، فنانشل ٹائمز، فرسٹ ڈرافٹ، گوگل، دی ہندو اور دی وال اسٹریٹ جرنل نے بہ طور پارٹنر اجلاس میں شمولیت کی۔ یہ عالمی اتحاد درحقیقت ایسے انتباہی نظام کا جنونی آغاز تھا، جس کی جڑیں سرمایہ داریت کے مفادات میں پیوست ہیں۔ ’انسانی جان کو خطرہ‘ کے نام پر یا انتخابات کے دوران جمہوریت دوستی کے نام پر مستقبل میں خبروں کا متن اور مواد میڈیا صارفین تک پہنچانا اس بیٹھک کا مقصد تھا۔ اس اتحاد کے تصور کی پیدائش کہاں ہوئی؟ یہ بھی انتہائی دلچسپ ہے۔
2019ء میں برطانیہ میں خبروں کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ہاؤس آف لارڈز نے سلیکٹ کمیٹی فار ڈیموکریسی اینڈ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اینڈ ری زوریکشن آف ٹرسٹ کے نام سے 153 صفحات پر مبنی رپورٹ شائع کی، جس میں درج ہے کہ روز مرہ ایک ارب 73 کروڑ صارفین فیس بک کا استعمال، یوٹیوب پر روزانہ ایک ارب گھنٹہ واچ ٹائم، گوگل پر روزانہ ساڑھے تین ارب سرچز اور ٹویٹر پر روزانہ پچاس کروڑ ٹویٹس ہوتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے تناظر میں پیش کیے گئے۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے سے کووڈ سے متعلق متبادل معلومات (جنھیں ٹی این آئی نے جھوٹی معلومات کہا ہے) پھیلائی جا رہی ہیں۔ دورانِ انویسٹی گیشن اس کمیٹی کے سامنے بی بی سی کی جانب سے ان معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس دوران جون 2019ء میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر احمد رزاق کے نام سے غلط معلومات سے نمٹنے کے عنوان سے مضمون شائع ہوا، جس میں معلومات کو کنٹرول کرنے کے لیے بی بی سی کے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔بی بی سی پر شائع ہونے والے مضمون کی ابتدا یوں تھی: پراپیگنڈا، دھوکہ دہی، آزادانہ تقریر کو دبانا، ہر معاشرے کا مسئلہ ہے لیکن حالیہ برسوں میں ’جعلی خبریں‘ اور غلط معلومات کی بنیاد پر پبلک ڈسکورس تشکیل پا رہا ہے۔ اس مضمون میں اینٹی ویکسرز(Anti Vaxxers)کی تحریک کو گمراہ کن اور خطرناک معلومات پھیلانے کا موجب قرار دیا گیا۔ مضمون میں ان معلومات کی روک تھام کے لیے الگورتھم کی مداخلت تجویز کی گئی، جس کا مقصد آن لائن انفارمیشن ایکو سسٹم کو کنٹرول کرنا تھا۔ الگورتھم تکنیک کے ذریعے معلومات کو فلٹر کیا جاتا ہے۔
ہاؤس آف لارڈز کی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ٹرسٹیڈ نیوز انیشیٹو (ٹی این آئی) کے مقاصد طے کیے گئے۔ چناں چہ بی بی سی کی صدارت میں ہونے والے مذکورہ اجلاس میں کورونا وائرس سے متعلق پبلک ڈسکورس (کلامیہ) کی تشکیل کے لیے معلومات تک رسائی اور پھیلاؤ کے میکانزم کو عملی درجے میں نافذ کرنے کی حکمتِ عملی طے ہوئی۔ ڈبلیو ایچ او نے جب کورونا کو وباء ڈکلیئر کیا تو اس کے بعد ٹی این آئی متحرک ہوا اور اس وباء پر رائے سازی کے لیے میڈیا شراکت داروں میں اضافہ ہو گیا۔ اب ٹویٹر، مائیکروسافٹ، ایسوسی ایٹڈ پریس ایجنسی، فرانس پریس، رائٹرز اور رائٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دی سٹڈی آف جرنلزم اس کارٹل کا حصہ بن گئے۔ ٹی این آئی کے ذریعے سے کورونا وائرس سے متعلقہ خبروں کو دبانے، کنٹرول کرنے اور سمت متعین کرنے کی اجازت دی گئی۔ ٹی این آئی نے مزید ایک نئے منصوبہ پر کام کا آغاز کیا۔ یہ منصوبہ پراجیکٹ اوریجن کے نام سے شروع ہوا۔ اس کا مقصد خبروں کے مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے چیک لگانا تھا، جس سے خبری مواد کا ماخذ معلوم کرنا تھا۔
پروجیکٹ اوریجن‘ مواد کی ہیرا پھیری کا پتہ لگانے اور مواد کے ماخذ کی توثیق کر کے غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے۔ ٹی این آئی کی پالیسی کے برعکس کسی بھی خبری مواد کو گمراہ کن یا نا قابلِ اعتبار مواد کی کیٹاگری میں شامل کر کے اس کی رسائی کو محدود یا ایسے مواد کو فلٹر کیا گیا، پروجیکٹ اوریجن کے تحت ہی خبر کو تصدیق شدہ یا غیر تصدیق شدہ قرار دینے کے بعد ٹی این آئی میڈیا کارٹل کے ذریعے ان خبروں کی اشاعت کی جانے لگی۔ جولائی 2020 ء میں مائیکرو سافٹ کے چیف سائنٹفک افسر ایرک ہورویٹز نے ٹی این آئی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پروجیکٹ اوریجن کے شراکت دار میڈیا ہاؤسز کے ساتھ مل کر مائیکروسافٹ خبروں کو اینڈ ٹو اینڈ ایتھنٹیکیشن کے تحت جانچ پڑتال کر رہا ہے۔ دسمبر میں بی بی سی نے خبر شائع کی کہ کورونا سے متعلق خبریں آن لائن ذرائع سے لاکھوں افراد تک پہنچی ہیں، جس سے ویکسین کی افادیت پر سوالات قائم ہو رہے ہیں۔ ان معلومات کا سد ِباب کرنا ناگزیر ہے۔
کووِڈ سے متعلق خبروں پر مرکزی دھارے کے میڈیا بالخصوص ٹی این آئی نے جان بوجھ کر مِس انفارمیشن (غیر ارادی طور پر گمراہ کن معلومات) کو ڈِس انفارمیشن کے ساتھ اُلجھا دیا ہے۔ ڈِس انفارمیشن دراصل ارادی طور پر گمراہ کن معلومات عوام تک پہنچانا ہے، تاکہ رائے عامہ کا تعین کیا جاسکے۔ میڈیا کے ذریعے سے ترسیل کی جانے والی یہ ڈِس انفارمیشن پالیسیوں اور حکومتوں کی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کورونا وائرس پر مبنی یہی ڈِس انفارمیشن منظم انداز میں مرکزی دھارے کے عالمی میڈیا کے ذریعے سے پھیلائی گئی۔
اب ہمیں ڈِس انفارمیشن کے سسٹم کو سمجھنے کے لیے کورونا خبروں سے متعلق بنیادی سوال قائم کرنا چاہیے، یعنی ٹی این آئی کی کورونا کی خبروں کا سورس کیا ہے؟ ٹی این آئی دنیا کی بڑی پبلک ہیلتھ ایجنسیوں کی جاری کردہ کووِڈ 19 کی ہیلتھ پالیسی کی خبریں نشر کرتا ہے، ان خبروں کا سورس ڈبلیو ایچ او، یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی)، یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے ) اور یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ رہا ہے۔ ان خبروں اور پالیسی کی بنیاد پر ریاستی سطح پر قانون سازی کرائی گئی اور ٹاپ لیول سے موصول ہونے والی پالیسی کو مختلف ممالک کے مقامی میڈیا کے ذریعے سے نشر کرایا گیا۔
اس تناظر میں، پاکستان کی حکومت نے اپریل 2020 ء میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر قائم کیا، جس میں عسکری حکام کو شامل کیا گیا، تاکہ این سی او سی کا ریاست کے دیگر اداروں پر شکنجہ مضبوط رہے۔ این سی او سی کی جانب سے پاکستان کے میڈیا ہاؤسز کو کووِڈ کی خبروں کی اشاعت پر پالیسی دی گئی، جس کے تحت صرف این سی او سی کے جاری کردہ ڈیٹا کو ہی نشر کرنا طے پایا اور آج بھی اس ڈیٹا کو روز مرہ کی بنیاد پر خبروں کی ہیڈ لائنز اور اخبارات کی شہ سرخیاں بنایا جا رہا ہے۔ میڈیا نمائندوں کو انویسٹیگیٹو جرنلزم کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس ڈیٹا کی تصدیق کرنے کا متبادل طریقہ اپنانے کا اختیار ہے۔ میڈیا میں ویکسین پر تحفظات یا نتائج کی خبروں کی اشاعت کی گنجائش نہیں ہے، یوں کہیے کہ کووِڈ سے متعلق انتہائی کنٹرولڈ جرنلزم رائج کی گئی ہے۔ یوں تو میڈیا ، آزادیٔ رائے یا تحقیقاتی صحافت کا دعوے دار ہے، تاہم کووِڈ کے تناظر میں یہ سب دعوے دھرے رہ گئے۔
بنیادی طور پر میڈیا کو ٹاپ ٹو ڈاؤن کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ جو پبلک ہیلتھ پالیسی ٹی این آئی کے توسط سے میڈیا کو دی جاتی ہے، وہی مواد نشر ہوتا ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے سے ویکسین کی تیاری کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ یہ حیران کن حقیقت ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے جب فروری 2020 ء میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے پی سی آر ٹیسٹ کو ہی معیار مقرر کیا تو اس سے ایک ہفتہ قبل ہی جارج سوروس اور بل گیٹس نے کووڈ ٹیسٹ کمپنی مولوجک پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ پی سی آر ٹیسٹ کی رپورٹس میں فالس پازیٹو شرح کا تناسب زیادہ ہونے کی تصدیق خود پاکستان میں سابق مشیرِ صحت نے پریس کانفرنس میں کی تھی اور ڈبلیو ایچ او نے بھی یہی کچھ کہا۔ اس ضمن میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ویب سائٹ پر 28؍ ستمبر 2020ء میں ایک ریسرچ آرٹیکل شائع ہوا، جس میں کورونا ٹیسٹ کے طریقۂ کار کو سائنسی بنیادوں پر غیر معیاری قرار دیا گیا۔ ٹی این آئی میڈیا کارٹل کے ذریعے سے اس پہلو کو بھی دبا لیا گیا۔
سب سے زیادہ چونکا دینے والے عناصر یہ ہیں کہ عالمی اداروں نے کووِڈ کے ابتدائی مؤثر علاج کے تمام طریقۂ کار کا مسلسل انکار کیا، بلکہ نومبر 2020 ء تک کورونا سے بچاؤ کی واحد تجویز کردہ آپشن صرف گھروں تک محدود رہنے کی تھی اور جب تک کوئی ویکسین نہیں آئی حکومت کی طرف سے منظور شدہ کوئی علاج مقرر نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً عام انسان تذبذب کا شکار ہوا۔ ٹی این آئی کی چھتری تلے بنے میڈیا کارٹل نے انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مقابلے پر انھی ہدایت ناموں کی پیروی کی اور ابتدائی علاج کی افادیت کے وسیع شواہد کے باوجود انھیں میڈیا میں جگہ نہیں دی گئی۔
وائرس کے ماخذ، ابتدائی علاج، ویکسین کے منفی اثرات سمیت کسی بھی متبادل مباحثوں میں حصہ لینے والے مائیکرو بائیولوجسٹ، ایپی ڈیمالوجسٹس، کیمیا دان، نینو ٹیکنالوجسٹ اور بائیوٹیکنالوجسٹ کی آرا کو ٹی این آئی میڈیا کارٹل کے مربوط سسٹم کے ذریعے سے دبایا گیا۔ صرف ڈبلیو ایچ او، سی ڈی سی، ایف ڈی اے اور این آئی ایچ کی پالیسی کو ہی مستند تصور کیا گیا۔ میڈیا کارٹل نے بنیادی طور پر فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مالی مفادات کو تحفظ دینے کی غرض سے معلومات کو حذف کرکے خبروں کو عوام تک پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ویکسین کے منفی اثرات اور اس کے باعث ہونے والی اموات کو بھی خبروں میں جگہ نہیں دی گئی۔ ٹی این آئی نیٹ ورک کے توسط سے کورونا سے بچاؤ کا حل صرف ویکسینیشن کو ہی قرار دیا گیا اور اس پالیسی کے ذریعے سے عالمی سطح پر دو ارب اُنیس کروڑ انسانوں کو ویکسین لگا دی گئی ہے۔ ریاستی سطح پر بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ویکسین کو لازمی قرار دیا گیا۔ یہ پالیسی عالمی اداروں کے دباؤ کے باعث نافذ ہوئی۔ میڈیا کارٹل کے ذریعے سے قدرتی ایمونیٹی سسٹم کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ویکسین کے ذریعے سے ایمونیٹی ڈویلپ کرنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ تجارتی اصولوں پر قائم میڈیا ڈِس انفارمیشن کی قیادت کر رہا ہے۔ ویکسین سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو اُجاگر کرنے کے برعکس فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کرنے پر ہم میڈیا کو"Presstitute"کہہ سکتے ہیں۔ معلومات کی اجارہ داری کی اس صنعت میں انفلوئنسرز کی مداخلت ہے، جس میں تھنک ٹینک کے سہولت کار اور ایسے ماہرین کی تحقیق کو خبروں و تجزیوں کا حصہ بنایا گیا ہے، جن کی تحقیق کی فنڈنگ بھی انھی کمپنیوں سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے میڈیا ہاؤسز اسی کارٹل کے فراہم کردہ زاویوں کی اشاعت مسلسل تکرار کے ساتھ کر رہے ہیں، تاکہ کورونا کا خوف مسلط رکھ کر مالی فوائد سمیٹے جاسکیں۔
ٹیگز
محمد اکمل سومرو
محمد اکمل سومرو