ملیکۃ العرب؛ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سب سے پہلی زوجہ مطہرہ اورسب سے پہلی مسلمان خاتون اُم المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے 15 سال پہلے 555ء میں مکہ میں پیداہوئیں۔ قُصی پر حضوؐر اور ان کا نسب مل جاتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ کے والد خویلد ایک کامیاب تاجر تھے۔ وہ حسنِ معاملہ اور دیانت داری کی وجہ سے مکہ میں نامور، قابلِ قدر اور ہر دل عزیز شخص تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے اپنے والد کی وفات کے بعد کاروبارِ تجارت سنبھالا۔ انھوں نے اس کاروبار کو مکہ مکرمہ کے امانت دار، تجربہ کار تاجروں کی ٹیم اور خاندان کے چنیدہ افراد پر مشتمل ایک تجارتی کارواں کی شکل دی۔ بین الاقوامی تجارت سے اپنی دیانت داری، حذاقت و مہارت اور فہم و بصیرت، حسن تدبیر ا ور کاروباری پیچیدگیوں کی گتھیاں سلجھانے میں ایک مقام پیدا کیا۔ آپؓ مکہ اور اس کے اردگرد معاشرے کے احوال پر بھی گہری نگاہ رکھتی تھیں۔
حضور اقدسؐ حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر بصریٰ شام کی تجارتی منڈی گئے اور واپسی پر دوگنا نفع کما کر لائے۔ ان کاروباری معاملات میں صدق و صفائی، امانت داری اور عقل مندی کی منصوبہ بندی نے حضو اکرمؐ کا حضرت خدیجہؓ کے سامنے اعتماد تسلیم کروایا۔ اس قافلے کے ہر فرد نے آپؐ کی صلاحیتوں کی گواہی دی۔ خاص طور پر حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے آپؐ کی زندگی کے ہر گوشے کے حوالے سے چشم دید گواہی دی، جس سے متأثر ہو کر سیّدہؓ نے حضوؐر کو اپنے نکاح کے لیے پیغام بھجوایا۔ آپؐ نے اپنے چچا ابوطالب کی مشاورت سے پیغام قبول کرلیا اور دونوں کی شادی طے پائی۔ ابوطالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔ اس وقت حضوؐر کی عمر 25 سال اور آپؓ کی عمر 40سال تھی۔ حضوؐر ہر بات میں حضرت خدیجہؓ سے مشورہ فرماتے۔ وہ بھی اپنے تجربات، تعلقات اور وسائل سب کچھ آپؐ پر نچھاور کرتیں۔ حضرت خدیجہؓ 24 سال سے زائد عرصے تک آپؐ کے ساتھ رہیں۔ شادی کے بعد اپناسارا مال آپؐ کو ہدیہ کردیا۔ اس شادی کے موقع پر حضرت صدیق اکبرؓ نے حضوؐر کی خدمت میں کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہا، مگر اندیشہ ہوا کہ شاید حضور گوارا نہ فرمائیں تو یہ تدبیر کی کہ عرض کیا کہ میرے دادا کے پاس حضوؐر کے دادا نے کچھ امانت رکھ دی تھی، میں وہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس طرح حضرت صدیق اکبرؓ نے وہ ہدیہ پیش کیا۔
10 نبوی میں شعبِ ابی طالب (مکہ کے نظام کے سیاسی، معاشی اور سوشل بائیکاٹ) کی آزمائش کے بعد حضرت خدیجہؓ کی طبیعت ناساز ہوئی۔ آپؐ نے علاج معالجے اور تسکین و تشفی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، مگر موت سے مفر نہیں۔ 10؍ رمضان المبارک 10 نبوی کو آخری لمحات میں حضرت خدیجہؓ کی نگاہیں رسول اقدسؐ کے چہرۂ انور پہ جمی ہوئی تھیں کہ ان کی پاکیزہ روح جسد ِعنصری سے پرواز کرگئی۔ مکہ مکرمہ کے قبرستان مقام حجون میں حضرت خدیجہؓ کی قبر تیارہوئی تو آپؐ بہ نفسِ نفیس اس میں اُترے اور آپؓ کے جسد ِاطہر کو قبر میں اتارا۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔