نوے کی دہائی میں صرف پی ٹی وی کی نشریات ہی ہم تک پہنچتی تھیں اور اُس میں حکومتی کارکردگی خوب بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی تھی۔ معلومات کا بہاؤآج کی نسبت کم تھا، اس لیے لوگوں کے پاس انھیں مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ چناںچہ ہمیشہ کی طرح انسانی بنیادی ضرورتوں کو بنیاد بناتے ہوئے اُس وقت کی حکومتوں نے تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگانے شروع کیے اور اس تمام اسکیم کے پیچھے ’’میرے گاؤںمیں بجلی آئی ہے‘‘ کا سلوگن تھا۔ پہلے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے لالٹین کی روشنی استعمال کرتے تھے، اب وہاں برقی بلب کا استعمال ہوگا اور یوں ہماری نوجوان نسل پہلے سے زیادہ پڑھ لکھ کر ملک کی خدمت کرے گی۔ چناںچہ ان نعروں کی پاداش میں اس غریب المعیشت ملک کی پہلے سے جھکی ہوئی کمر پر بجلی کی پیداوار کے ایسے منصوبے لادے گئے، جنھیں رواں رکھنے کے لیے سالانہ بنیادوں پر ہمیں اربوں روپے خرچ کرنے پڑے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ ایسے معاہدے تھے، جن کے تحت ایسے کارخانے جو بند پڑے ہوں، انھیں بھی حکومتِ پاکستان ان کی طے شدہ صلاحیت کی بنیاد پر ادائیگی کی پابند تھی۔ پھر ہوا یوں کہ ڈالر کی قیمت، کارخانے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت، بجلی کی ترسیل میں نقصان، سرکار کی جانب سے بجلی کی قیمت کی عدمِ ادائیگی اور ان تمام عناصر کی وجہ سے اکٹھی ہونے والی ادائیگیوں کو بینکوں سے قرض حاصل کرکے پورا کرنا اور یہ وہ قرض تھا جو حکومت پر ہوتا تھا، یعنی عوام پر بوجھ ہوتا تھا۔ یہی وہ بدنامِ زمانہ قر ض ہے، جسے سرکلر ڈیٹ Circular Debt کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس پر لوٹ مار کو اتنا آسان کردیا کہ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس سلسلے کو یوں ہی لے کر چلتے رہے۔
آج حال یہ ہے کہ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت 33 ہزار میگا واٹ ہے، جب کہ جون 2019ء میں ملک کی زیادہ سے زیادہ ضرورت 21 ہزار میگا واٹ رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس پیداوار میں سے 65 فی صد بجلی تیل کے کارخانوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اگر یہ بند بھی رہیں تو حکومت کو انھیں بند رہنے کا طے شدہ کرایہ بھی دینا پڑتا ہے۔ ایک اَور اہم حقیقت یہ ہے کہ اس سے پیدا شدہ بجلی ترسیل کے دوران ضائع ہوجاتی ہے، جو ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2014ء میں عالمی سطح پر کُل پیداوار کا 8.25 فی صد تھا، لیکن پاکستان میں یہی شرح 21 فی صد پر ہے۔ یہ فرق صرف چوری اور نااہلی کا ہے، لیکن ہمارے پالیسی ساز اداروں میں جو بڑے بڑے دماغ بیٹھے ہیں، ان کے پاس اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان صارفین کے بلوں میں آن لائن لاسز کو ڈال دیا جائے، جو امانت داری سے بجلی کے بل ادا کررہے ہیں۔ گویا چوری کا نقصان ان سے پورا کیا جارہا ہے، جو چور نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے شروع میں کافی شور مچایا کہ وہ جلد ہی اس نظام کو ٹھیک کرلیں گے، لیکن ماہانہ بنیادوں پر یہ حکومت بھی آن لائن لاسز کو صرف ایک فی صد کم کرسکی ہے۔ چناںچہ آج کی تاریخ میں یہ سرکلر ڈیٹ 20 کھرب روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں 200 ارب روپے کا قرض لیا گیا ہے، جس کے لیے محکمہ بجلی کے 70 اثاثہ جات کو رہن رکھ دیا گیا ہے۔ دراصل ان لوگوں کے پاس قرض کے علاوہ کوئی دوسرا حل موجود نہیں ہے۔ کیوںکہ دوسرے حل کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، جو ہم نے کب کا چھوڑ رکھا ہے۔
ٹیگز
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔