حَدَّثَنَا شَدَّادٌ قَالَ: سمعتُ أَبَا أُمَامَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِﷺ: ’’یَااِبْنَ آدَمَ إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَیْرٌ لَکَ، وَأَنْ تُمْسِکَہُ شَرٌّ لَّکَ، وَلَا تُلاَمُ عَلٰی کَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ، وَالْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مَّنَ الْیَدِالسُّفْلٰی۔‘‘
(سیّدنا ابواُمامہؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے اولادِ آدم! ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنا تیرے لیے بہتر ہے۔ اور روک کر رکھنا تیرے لیے شرّ ہے۔ ہاں! اس قدر بچانا قابلِ ملامت نہیں، جو تیری ضرورت کے لیے کافی ہو۔ اور انفاق کا آغاز ان سے کر، جن کی ذمہ داری تجھ پر عائد ہوتی ہے۔ اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے کے ہاتھ سے۔‘‘ (الصحیح المسلم، 2388)
(3) اس حدیث کے آخری جملے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ یہ لینے والا ہاتھ خوا ہ فقر کی وَجہ سے ہو یا حرص، لالچ اور استحصال کی وَجہ سے ہو۔ یہ اِنفرادی صورت میں ہو یا اجتماعی شکل میں ہو۔ بہر صورت حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں انسانی معاشرے کے لیے خیر کا باعث نہیں ہے۔ انسان کا ہاتھ اوپر والا یا دینے والا تب بنتا ہے، جب مالی فراوانی ہو، مال پرستی کا خاتمہ ہو اور انسان دوستی کا ماحول ہو۔ اگر کوئی فرد یا معاشرہ مفلوک الحال ہوجائے تو افلاس انسان کو ہاتھ پھیلانے پہ مجبور کردیتا ہے۔ ایسے میں اَخلاق کی بلندی قائم نہیں رہ سکتی، بلکہ عقائد تک میں فساد کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ حضوؐر نے فرمایا کہ ’’فقر انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (سنن نسائی) اس لیے ضرورت ہے کہ ایسا اقتصادی نظام قائم ہو جو افراد و معاشرے کو خوش حال کردے، تنگ دستی اور محتاجی سے چھٹکارا دِلائے، تاکہ لوگ مانگنے والوں کے بجائے دینے والے بن جائیں۔ خوش حالی اور فراوانی میں انسان اپنے عز و شرف اور وقار کو قائم کرنے کی طرف طبعی اور جبلی طور پر مائل ہوتا ہے۔ جب یہ فضا عمومی ہوجائے تو اس سے معاشرتی استحکام، بلندفکری اور ذہنی بالیدگی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اس کے بعد ہر وہ طریقہ قانوناً ممنوع قرار دیا جائے، جو چھینا چھپٹی اور حرص و طمع کا ہو۔ اس کے ساتھ اِصلاح و تربیت کا ایسا نظام ہو، جو انسان کو نفس کے اغوا اور استحصال پسندوں سے محفوظ کردے۔
آج سرمایہ دارانہ اور استحصال پسند نظام کے ماحول میں ہم جی رہے ہیں۔ آج اصلاح و تربیت اور وعظ و نصیحت اس لیے بے اَثر ہے کہ اس کی پرورش کا ماحول موجود نہیں ہے۔ معروضی صورتِ حال میں ہمیں اِنفرادی سطح پر اپنے قرب و جوار کے لوگوں کا ممکنہ خیال رکھنے کے ساتھ اجتماعی سطح پر اس نظام کا متبادل ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی ہے، جو اس حدیث کے تقاضے پورے کردے۔ سرمایہ پرستانہ نظام ختم ہوجائے۔ ایثار، ہمدردی اور اجتماعیت پر مبنی معاشی نظام قائم ہوجائے۔ مال کے درست استعمال کا عمومی اور اجتماعی ماحول بن جائے۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔