عَنْ مُعَاوِیَۃَ رضی اللّٰہ عنہٗ قَالَ سَمعتُ رَسُولَ اللَّہِ ﷺ: یَقُوْلُ:
’’إِیَّاکُمْ وَ التَّمَادُحَ، فَإِنَّہُ الذَّبْحُ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث 3743)
(حضرت امیرمعاویہؓ سے روایت ہے۔فرماتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’ایک دوسرے کی (بے جا) تعریف سے پرہیز کرو۔ یہ ذبح کرنے کے برابر ہے۔‘‘)
اس حدیثِ مبارکہ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کی غیرضروری تعریف سے اجتناب برتنے اور حقیقت پر مبنی گفتگو کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبیﷺ نے کسی کی خوبی پر ایسی تعریف کرنے سے منع فرمایا ہے، جو حد سے بڑھ جائے، جس سے انسان خوش فہمی کا شکار ہوجائے۔ یہ بہت ہی بُری بات ہے کہ کسی کی بلاوَجہ تعریف کی جائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس شخص میں کوئی ایسی خوبی نہیں ہے، پھر بھی اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اس سے دشمنی کے مترادف ہے۔ اگر کسی کو اپنی تعریف کروانے کا شوق پیدا ہوجائے تو یہ رجحانِ فکر تعمیرِ شخصیت میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ شاطر اور چالاک لوگ ایسے لوگوں کو احمق بنانے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے۔ یہ مرض عام انسانوں میں بھی ہوسکتا ہے اور خواص میں بھی۔ اور موقع پرست ماتحت اپنے حکمرانِ بالا کو چکمہ دینے کے لیے چاپلوسی کی روش اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے شخصیت کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ انسان خودآشنا ہونے کے ساتھ مردم شناس ہو۔ عمومی اَخلاق کی پابندی کے بعد ہر انسان سے اس کی شخصی خوبیوں کے مطابق سلوک کرے۔ کسی سے اس کے حقیقی مقام و مرتبے سے کم تر سلوک کرنا، اس کو مایوس اور متنفر کرتا ہے، جب کہ تعریف وغیرہ میں حد سے تجاوز غلط فہمی کا باعث بنتا ہے۔
زیرِنظر حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے انسانی شخصیت کے لیے اس رویے کو بہت خطرناک کہا ہے کہ آپس کی گفتگو میں بلاوَجہ کی تعریف و توصیف اختیار کی جائے۔ کسی کی بلاوَجہ تعریف کرنا اور کسی انسان کے گلے پر چھری پھیر دینا ایک برابر ہیں۔ اس لیے کہ کسی کی بے جا تعریف سے جب وہ خوش فہمی کا شکار ہوکر اپنے تئیں باکمال ہوجاتا ہے تو یہ حرکت اس کی حقیقی شخصیت کے قتل کے مترادف ہے۔ چناںچہ ایک موقع پر آپﷺ کے سامنے کسی نے جب دوسرے کی بے جا تعریف کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے۔ تو نے تو اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی۔ (متفق علیہ) ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ اپنی بے جا تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالو۔ (رواہ مسلم) اس لیے انسان کو کم ازکم خود اتنا عقل مند ضرور ہونا چاہیے کہ جب کوئی دوسرا آپ کو آپ کی حیثیت سے زیادہ پیش کرنے کی کوشش کرے تو آپ اپنی اصل حیثیت کو نہ بھولیں اور خود کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونے دیں۔
ٹیگز
مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز
پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد ناصرعبدالعزیز ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے ممبر ایڈوائزری بورڈ اور حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ درسِ نظامی کی مکمل تعلیم جامعہ خیر المدارس ملتان سے حاصل کر کے 1989ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ 1994ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی (اسلام آباد) سے ایل ایل بی آنرزشریعہ اینڈ لاءکیا۔ ازاں بعد پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے بطور استاد وابستہ ہوگئے۔ اس دوران علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی۔ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی۔ آج کل گورنمنٹ گریجویٹ کالج جھنگ کے شعبہ اسلامیات میں ایسوسی ایٹ پروفیسرہیں اور مولانا شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ انوار العلوم عثمانیہ ریل بازار جھنگ صدر کے اہتمام و انصرام کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیمیہ نظام المدارس کے ناظم امتحانات بھی ہیں۔ "ماہنامہ رحیمیہ" میں درسِ حدیث کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
معاہدۂ حِلفُ الفُضول کی اہمیت
عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بنِ عَوْفٍ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ: ’’شَھِدْتُ غُلَاماً مَعَ عُمُومَتِی حِلْفَ الْمُطَیَّبِینَ فَمَا اُحِبُّ أَنَّ لِی حُمْرَالنَّعَمِ وَ انّی أَنْکُثُہُ‘‘۔ (حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے م…
مؤمنانہ فراست کا تقاضا
عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ قَالَ: ’’لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ‘‘۔ (صحیح البخاری: 6133) (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ …
عذابِ جہنم سے بچانے والے اعمال
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: ’’أَلا أُخْبِرُکُمْ بِمَنْ یَحْرُمُ عَلَی النَّارِ، أو بِمَنْ تَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّارُ؟ عَلٰی کُلِّ قَرِیْبٍ، ھَیِّنٍ، سَھْلٍ‘‘۔ (ال…
روزے اور قرآن کی بندے کے حق میں سفارش
عَنْ عبد اللّٰہ ابن عمرؓ أنّ رسول اللّٰہ ﷺ قال: ’’الصّیامُ والقرآن یُشَفِّعان یوم القیامۃ للعبد۔ یقول الصّیام: أی ربِّ! منعتُہ الطّعام والشّہوۃ، فشَفِّعْنی فیہ، و یقول القرآن: منعتُہ…