دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا نے یورپ کو اپنے تابع اور فرماں بردار رکھنے کے لیے اسے ایک نام نہاد معاہدے میں جکڑ لیا، جس کا نام ’’نیٹو‘‘ رکھا گیا۔ رکن ملکوں کو پا بند کیا گیا کہ وہ اپنی جی ڈی پی کا 2 فی صد نیٹو کے فنڈ میں جمع کروائیں گے۔ بدلے میں رُکن ملک پر حملہ تما م ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ امریکا نے یورپ کو روس کے ڈر اور خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ ڈر اور خوف کی کیفیت پیدا کر نے کے لیے ہر خطے کے اعتبار سے علاحدہ علاحدہ دہشت گرد جتھے تیار کر رکھے ہیں۔ عدمِ تحفظ کے احساس کو پروان چڑھانے کی مختلف حکمتِ عملیوں پر کام کر تا رہتا ہے۔ جتنا ڈر اور خوف کا ماحول بنانے میں کام یاب ہوتا ہے، اس کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے کاروبار کو فروغ ملتا ہے۔ ان کی پیداوار کی طلب بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی جتنا زیادہ ڈر اور خوف‘ اتنے ہی زیادہ کاروباری منافع جات۔ ملک عدمِ تحفظ کے علاج کے لیے اسلحہ خریدتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی جکڑ بندیوں کے پھندوں میں پھنس جاتے ہیں، جس کے تدارُک کے لیے ان کی اسلحے کی خریداری بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔
RD (رپورٹ اینڈ ڈیٹا) کے مطابق 14 ملکوں میں 2300 افراد اسلحے کی تیاری میں ملوث ہیں۔General Dynamic Corporation امریکا کی پبلک سیکٹر میں اسلحہ بنانے والی سب سے بڑی فرم ہے، جو اسلحہ تیار کرکے دہشت گرد تنظیموں کو فراہم کرتی ہے۔ 2020ء تک اس میں ملازمین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ انھوں نے 90ہزار ملازمین کی مدد سے 37.9 ارب امریکی ڈالر کا اسلحہ تیار کیا تھا۔ ر یسر چ اینڈ ڈویلپمنٹ کے مطابق 2019ء میں 20 ارب امریکی ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا گیا۔
3؍ ستمبر 2022ء کو چیک ریپبلک میں 70 ہزار سے زائد افراد نے مظاہرہ کیا۔ یورو سٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگ حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے کہ حکومت مستعفی ہو۔ کیوں کہ نیٹو کے مبینہ اقدامات کے باعث ہمارے لیے سردیوں میں گیس اور تیل کی قلت اور کمرتوڑ مہنگائی برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف جرمنی کے شہر پراگ اور فرانس کے مختلف شہروں میں ہنگامے دیکھنے میں آئے۔ اس کے علاوہ یورپ کے دیگر شہروں کے مظاہروں میں دن بہ دن شدت بڑھتی جارہی ہے۔
5؍ اکتوبر 2022ء کو اوپیک کا ایک اہم اجلا س آسٹریا کے شہر ’ویانا‘ میں منعقد ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اوپیک 2 ملین بیرل تیل کی یومیہ پیداوار کم کرے گا، تا کہ عالمی منڈی میں تیل کی پیداوار میں توازن قائم کرکے تیل کی عالمی قیمتوں پر قابو پایا جاسکے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے تیل کی عالمی منڈی میں پیداوار کم کرکے روس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے، جس کی اسے سزا دی جائے گی۔ امریکا دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس تیل اور گیس کی جتنی مقدار موجود ہے، اسے چاہیے کہ اپنے اتحادیوں کی مذ کورہ پہلوؤں سے ہونے والی قلت کو پورا کرے۔ آج اس کے اتحادیوں کو تیل اور گیس کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک طرف امریکا اور یورپ مل کر روس پر پابندیاں عائد کرتے ہیں اور دوسر ی طرف تقاضا ہے کہ روس انھیں گیس اور تیل فراہم کرکے ان کے معاشی اور سماجی مسائل بھی حل کرے۔ یعنی ’’چوپڑیاں اور دو دو‘‘ ( نہ صرف فائدے اٹھائیں، بلکہ قیمت بھی دوسرے برداشت کریں)۔ عالمی منڈی میں امریکا کا مقابلہ پہلی دفعہ کسی طاقت ور قوت کے ساتھ ہے۔
npr کی 19؍ اکتوبر 2022ء کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ وہ سٹریٹجیک آئل ریزور (Strategic Oil Reserve) کی مد میں 15 ملین بیرل تیل عالمی منڈی میں جاری کرے گا۔ یہ تیل اس مد کا حصہ ہے، جو صدر نے سال کے شروع میں 180 ملین بیرل کے کوٹے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ تیل کا اِجرا دسمبر میں متوقع ہے، تاکہ اس دوران ہونے والی گیس کی شدید قلت پر قابو پایا جاسکے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہر خاندان معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ دی گارڈین (The Guardian) اخبار 19؍ اکتوبر 2022ء کے مطابق جوبائیڈن نے الزام لگایا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیو ٹن کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر شاید بھول گئے ہیں کہ انھیں کے ایما پر سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں کو غیر فطری طریقے سے گرا کر جو 2014 میں 98.97 ڈالر فی بیرل تھیں، 2015ء میں محض 52.32 ڈالر فی بیرل کردی تھی۔ اس کے بعداگلے سال 2016ء میں اسے 43.67 ڈالر فی بیرل پر لے آیا تھا۔ یہ ایک کھلی جنگ تھی۔ ا س وقت امریکی مؤقف تھا کہ ایک ہی جھٹکے میں تینوں ملکوں کی معیشتوں کو تباہ برباد کردیا جائے۔ کیوں کہ تینوں ملکوں کی معیشتوں کا دار و مدار تیل اور گیس کی فروخت پر مبنی تھا۔ دوسرے لفظوں میں اگر ان کے بجٹ پر حملہ کردیا جائے تو وہ معاشی طور پر تباہ و برباد ہو کر امریکا کے تلوے چاٹیں گے۔
روس اور ایران آزاد قومیں تھیں۔ انھوں نے معروضی حالات کے پیشِ نظر فیصلے کرکے اپنی اپنی قوم کو معاشی بحران سے نکال لیا، جب کہ سعودی عرب کی معیشت آج تک نہیں سنبھلی۔ اسے طرح طرح کے ٹیکس عائد کرکے اپنی عوام پر عرصۂ حیات تنگ کرنا پڑا۔ اس وقت امریکا نے سعودی عرب کو بحران سے نکالنے کی رتی برابر کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اُلٹا اسے 10 ارب امریکی ڈالر کے اسلحے کا معاہدہ کرکے اس کی اقتصادیات کا جنازہ نکال دیا۔ وہ معاشی دلدل میں پھنس گیا۔ دوسری طرف ایران اور روس کو بھی معاشی بحرانوں میں سے گزرنا پڑا۔ آج امریکی صدر سعودی عرب کو دھمکی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سعودی عرب کو امریکی نافرمانی کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ اس کا جرم کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے کیوں سوچتا ہے؟ آج امریکی نظام بھی ایسے ہی لڑکھڑا رہاہے، جیسے جوبائیڈن چلتے ہوئے لڑکھڑاتا ہے۔ دھمکیاں دینے کا دور گزر چکا ہے۔ سعودی عرب کی بادشاہت کی طرف سے ایک شہزادے نے امریکا کو جواب میں کہا ہے کہ: ’’ہماری شہنشایت کو دھمکیاں نہ دی جائیں‘‘۔ (فاکس نیوز 18اکتوبر 2022ء)
2021ء کے اعدادوشمار کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی یومیہ پیداوار 89.9 ملین بیرل تھی۔ اوپیک کے اعلان کے مطابق یومیہ دو ملین بیرل تیل عالمی منڈی میں کم کر دیتا ہے اور امریکی تیل کی کمپنیاں ایک ماہ کے دوران صرف 15 ملین تیل کا اجرا کرتی ہیں تو عالمی تیل کی منڈی کی طلب کے تقاضا کے تحت ’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘ کے مترادف ہوگا۔
ٹیگز
مرزا محمد رمضان
مرزا محمد رمضان نے ساہیوال میں 1980 کی دہائی کے آغاز میں حضرت مولانا منظور احسن دہلویؒ کی مجالس سے دینی شعور کے سفر کا آغاز کیا اور پھر حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ سے ان کی رحلت تک تعلیم و تربیت کا تعلق استقامت کے ساتھ استوار رکھا۔ اب حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ سے وابستہ ہیں۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 33 سال تک پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ادارہ آئی بی پی میں پانج سال تک معاشیات، اکاونٹس اور بینکنگ لاز میں تعلیم دیتے رہے۔ معیشت کے ساتھ ساتھ آپ قومی و بین الاقوامی امور و حالات حاضرہ پر مجلہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "عالمی منظر نامہ"کے سلسلہ کے تحت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
تنازعۂ فلسطین کا حالیہ مظہر
نباتاتی زندگی اپنے اندر ایک مربوط اور مضبوط نظام رکھتی ہے، جس کا اَساسی تعلق اس کی جڑوں سے ہوتا ہے، جو زمین میں مخفی ہوتی ہیں۔ یہ نظام انسانوں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ …
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
استعمار کا شکست خوردہ مکروہ چہرہ
استعماری نظام پے در پے ناکامیوں کے بعد شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ اپنے غلبے کے دور میں دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں۔ دعوے کے طور پر تو …
عالمی معاہدات کی صریحاً خلاف ورزیاں
(نینسی پیلوسی کا دورۂ تائیوان) چینی اخبار گلوبل ٹائم کے مطابق امریکی ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی رات کی تاریکی میں تائیوان کے دارلحکومت تائے پی شہر میں 2؍ اگ…