آج کل پاکستان میں ہر طرف صدارتی نظام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس پر ہرطرح کے میڈیا پر خوب لکھا اور بولا جارہا ہے۔ گویا یہ آج کل کا ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں قومی اور اجتماعی مسائل پر آزادانہ رائے کے بجائے ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے سازی کی باقاعدہ ایک مہم چلائی جاتی ہے۔ پھر اس سے اپنی مرضی کے نتائج لیے جاتے ہیں، بلکہ آج کل تو سوشل میڈیا پر ’’ہیش ٹیگ‘‘ کو باقاعدہ سوشل میڈیائی جنگ کا ایک مضبوط ہتھیار تصور کیا جاتا ہے، جس سے لوگ میڈیا پر اس مسئلے کو تلاش کرتے ہیں، جس پر سب سے زیادہ بات چیت چل رہی اور بحث و مباحثے ہورہے ہوتے ہیں۔ اسے سوشل میڈیا کی زبان میں ’’ٹاپ ٹرینڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس پر پھر کبھی سہی کہ آخر یہ کون سی قوتیں ہیں کہ کسی بھی وقت کسی مسئلے کو وہ ہاٹ ایشو بنادیتی ہیں اور پھر دھڑا دھڑ ہرطرف سے اس پر لکھا اور بولا جانے لگتا ہے اور عوام کی رائے کو ایک خاص نکتے پر مرتکز کیا جانا شروع ہوجاتا ہے۔آج ہمیں صرف اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ موجودہ نظام کی ناکامی سے توجہ کیوں ہٹائی جارہی ہے اور ایک نئی بحث کس لیے شروع کردی گئی ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی نظام ہونا چاہیے اور آخر اس نظام کی ناکامی کو کیوں بے نقاب نہیں کیا جارہا؟
خلط ِمبحث کے طور پر صدارتی طرز ِحکمرانی کے فضائل اور جمہوری طرز ِحکومت کے نقائص گنوانے والے اس سفاک اصل سرمایہ داری نظام کی ناکامی کو تسلیم کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں، جو اِن دونوں نظاموں کی قبا میں چھپا ہوا ہے اور پچھلے تقریباً سو سال سے دنیا بھر کے ملکوں میں ’’جمہوری‘‘، ’’صدارتی‘‘ اور ’’بادشاہی‘‘ ناٹک کے ساتھ بہت سے ملکوں میں انسانیت کی تباہی اور بربادی کی منظر کشی کر رہا ہے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ در اصل آج ہمارے ملک میں گزشتہ چوہتر برسوں سے مسلط سرمایہ دارانہ نظام کی یہ ناکامی ہے اور اس نظام کی ناکامی کسی ایک حکمران جماعت یا کسی اعلیٰ عہدے پر براجمان کسی ایک فرد کی ناکامی نہیں، بلکہ ملک میں موجود ساری سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ کیوں کہ یہ ساری جماعتیں اسی نظام کی نمائندہ اور محافظ رہی ہیں۔ انھیں اپنی اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ان سب نے باری باری اقتدار کے مزے لوٹے ہیں۔ ان سب کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ یہ نظام کی حقیقت اور اس کے ظلم و استحصال کو چھوڑ کر صرف افراد کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور افراد ہی سے توقعات لگانا سکھاتی ہیں۔ گزشتہ چوہتر سالوں سے ان کی یہی رَوِش رہی اور ہمارے ہاں یوں ہی کاروبارِ سیاست جاری و ساری رہا ہے۔
ان طرز ِحکمرانیوں کی یہ بحث کوئی نئی نہیں۔ یہ تو زمانوں سے زیرِ بحث رہی ہیں۔ طرز ِ حکمرانی کا علم اور اس حوالے سے آرا تاریخ کا حصہ ہیں اور ماضی کا لٹریچر ان سے بھرا پڑا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ پون صدی سے مسلط نظام کے قوم پر اثرات و نتائج کیا ہیں؟ اور جب وہ ہمارے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے تو آج تک ان جماعتوں نے اس سے قوم کی جان کیوں نہیں چھڑائی۔ لہٰذا ایسے موقع پر استحصالی اقتدار کی غلام گردشوں میں بیٹھ کر صدارتی اور جمہوری نظام کی بحثیں‘ استحصالی نظام کی باسی کڑی میں اُبال کے سوا کچھ نہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی جماعتوں کی سیاست ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے اور یہ صرف لوٹنے کے لیے ملک پر مسلط ہیں۔ گویا باڑ ہی کھیت کو کھارہی ہے۔ آپ جائزہ لیجیے اگر ایک خاندان کے بعض افراد سیاست اور حکومت میں موجود رہے ہیں تو وہ اپنے خاندان کے ان افراد سے کہیں زیادہ امیر اور خوش حال ہیں جو سیاست میں نہیں یا انھیں حکومت میں آنے کا موقع نہیں ملا۔ یہاں کی سیاسی جماعتیں کلی طور پرموروثی ہیں۔ جماعتوں کو چلانے والے جماعتوں کے رہنما کم اور مالک زیادہ ہیں۔ وہ جماعتوں کو ایسے چلاتے ہیں، جیسے کمپنیوں کے مالکان اپنی کمپنیوں کو کاروباری اصولوں پر چلایا کرتے ہیں۔
یہ وقت دو طبقوں کے لیے بہت اہم ہے؛ پہلا: روایتی سیاسی نظام کو قبول کرکے اس کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنے والا طبقہ کہ وہ اب سوچے اور اسے اب اس مخمصے سے باہر نکلنا ہوگا کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے قوم کی کایا کلپ ہوسکتی ہے، بلکہ یہ ایک ناممکن امر ہے۔ اب اسے نظام کی تبدیلی کے نظریے کی dynamics پر سوچنا چاہیے، اور نظام کی تبدیلی کے نظریے پر کام کرنے والی قوتوں کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
دوسرا طبقہ جو شروع دن ہی سے اس نئے بننے والے ملک کے لیے ایک نئے نظام کی ضرورت کو محسوس کررہا تھا، اس نے اوّل دن سے اس نظام کے چہرے سے نقاب الٹی اور اس کی تبدیلی کا نظریہ دیا۔ ہر طرح کے نا مساعد حالات میں وہ اپنے سفر کے راہی رہے۔ راستوں کے سنگ و خار ان سے اُلجھتے رہے، لیکن وہ طَرح دے کر اپنے سفر پر گامزن رہے۔ آج جہاں حالات نے ان کے مؤقف پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اور وقت نے تبدیلیٔ نظام کے نظریے کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر منوا لیا ہے۔
آج اس قافلے کے نوجوانوں سے قوم کو اُمیدیں بندھ رہی ہیں۔ لہٰذا اب انھیں تبدیلیٔ نظام کی جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا اور اپنی جدوجہد کو تبدیلی اور انقلابات کے جدید معیارات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ اس قافلے کے جواں ہمت افراد کی مستقل مزاجی روایتی جماعتوں سے مایوس ہوتے ہوئے نوجوانوں کو اپنے نظم میں جذب کرنے کا سبب بنے گی۔ یوں یہ انقلابی قوت ایک ایسی تحریک کا روپ دھار لے گی، جو قوم کی امیدوں کا مرکز بن جائے گی اور شعور و عمل کا صور پھونکنے کا سبب بنے گی۔
آج ملک میں موجود مسلط نظام پر کسی بھی چلمن ساز کی پردہ داری کو شعور کی آنکھ سے دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ سفاک نظام کو اسلام اور جمہوریت کے پُرانے سابقے کے بعد کسی اَور لبادے میں ملفوف کرکے نئے سابقے اور لاحقے کے ساتھ قوم کو کسی نئی خوش فہمی میں مبتلا نہ کیا جاسکے۔
(مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو
اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…
حکمران اشرافیہ کی نا اہلی اور مہنگائی کا نیاگرداب!
پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے گزر رہا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا ک…