دس سال پہلے IPI Gas Pipeline کے منصوبے کا ایران پاکستان بارڈر پر سنگِ بنیاد رکھا گیا، جس کے تحت 2777 کلومیٹر لمبی گیس پائپ لائن کے پاکستانی حصے پر کام شروع ہونا تھا اور اس کی تکمیل پر 40ارب مکعب میٹر گیس کی سالانہ بنیادوں پر ترسیل ہونا تھی۔ اس ترسیل سے پاکستان نے بھی فائدہ اٹھانا تھا، جس کے مقامی گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہوتے چلے جارہے تھے۔ یہ ایک اچھی منصوبہ بندی تھی، جو بالآخر پاک بھارت تعلقات میں خرابی کے راستے میں ایک مؤثر دیوار بھی ثابت ہوسکتی تھی، لیکن ان دس سالوں میں سب کچھ ہوا، لیکن اس گیس پائپ لائن پر کام نہ ہوا۔ اس مدت کے دوران بلوچستان میں علاحدگی پسندی نے زور پکڑا اور BLA پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی چلی گئی۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ حکومتی اداروں کے لیے سیکیورٹی فورسز کی رکھوالی کے بغیر بلوچستان کے بیش تر حصوں میں کام کرنا مشکل ہوگیا۔ دوسری طرف ایران سعودی عرب مخاصمت اور ایران پر امریکی پابندیوں نے مل کر اس منصوبے پر عمل درآمد کو کھٹائی میں ڈال دیا۔ اس دوران پاک بھارت تعلقات گراوٹ کا شکار رہے اور بالآخر 2019ء میں بالاکوٹ پر حملے اور کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے کے بعد ان میں مکمل تعطل پیدا ہوچکا ہے۔
راقم الحروف 2016ء کے اکتوبر میں کراچی سے مکران کوسٹل ہائی وے پر گوادر اور ایران بارڈر تک سفر کرچکا ہے، جس کا ذکر دسمبر 2016ء کے کالم میں کیا جاچکا ہے۔ گوادر میں بارڈر کے قریب ہونے کی وجہ سے ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیا ایران سے آتی ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ پورے بلوچستان، سندھ کے بیش تر حصے اور جنوبی پنجاب تک ایرانی مصنوعات کی غیر قانونی تجارت کی جارہی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کا کاروبار عروج پر ہے۔ ایف بی آر کے مطابق سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد قیمت کا ایندھن ایران سے سمگل کیا جاتا ہے۔ اس سب میں ایرانی ایندھن کے سستے ہونے کا فائدہ سمگلروں اور سرکاری اہل کاروں کو ہوتا ہے۔ جب بھی ایران پاکستان کے درمیان تجارت کی آواز اٹھائی جاتی ہے تو امریکی پابندیوں کا ڈھول پیٹا جاتا ہے، لیکن ترکی، عراق اور بھارت نے تو اِن پابندیوں کے باوجود اپنی سفارتی کاوشوں کی بہ دولت ایران سے مخصوص تجارتی روابط برقرار رکھے ہیں اور امریکا کے اعتراضات کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیا تو پاکستان جو ایران سے تجارت میں سب سے بڑا مفاد حاصل کرسکتا ہے، کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن دوسری جانب اسی پاکستان کی مقتدرہ اس تجارت کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے اندرونی اور بیرونی پابندیوں کے باوجود رواں دواں رکھے ہوئے ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ ایران اور پاکستان سرحدی علاقوں میں تجارت کو فروغ دینے کے لیے مارکیٹیں بنائیں گے۔ یہ بارہ سالہ پُرانا منصوبہ ہے، جو گیس پائپ لائن کی طرح بیانوں اور عزم و ارادے سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس کی وجہ پاکستان میں ایرانی ایندھن کی غیر قانونی تجارت ہے، جس کے بل بوتے پر کئی مافیا کالا دھن کمارہے ہیں اور افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ اور افغان خام مال کی تجارت کی بہ دولت اسے سفید دھن میں تبدیل کررہے ہیں۔
محمد کاشف شریف
محمد کاشف شریف 1999ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے MBA کرنے کے بعد اڑھائی سال تک محمد علی جناح یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے. اس کے بعد انہوں نے 18 سال DHA اسلام آباد میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کیں۔ اس وقت وہ متعدد تعمیراتی اور ترقیاتی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ بطور ایڈوائیزر برائے فائنانس و ٹیکسیشن خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نظام معیشت، معاشی منصوبہ بندی اور تعمیراتی شعبے میں ماہر ہیں۔ ایک عرصہ سے حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری کی سرپرستی میں ادارہ رحیمیہ علومِ قرآنیہ لاہور کے تعلیمی و تدریسی پروجیکٹ میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مجلہ رحیمیہ لاہور میں معیشت کے موضوع پر مستقل مضامین لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
الیکشن کے بعد
دُنیا میں یوکرین اور غزہ کے خطوں میں دو بڑی جنگیں لڑی جارہی ہیں، جنھوں نے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان جنگوں کو جاری رکھنا حقیقت میں ا…
یہ سب کون کرے گا؟
کسی بھی ملک کی عالمی تجارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی خاندان کے پاس خرچ کرنے کے لیے مجموعی رقم ہو، جو خاندان کے تمام ارکان مل جُل کر اکٹھا کرتے ہیں اور ان جمع شدہ وسائل سے …
کارپوریٹ فارمنگ کے ممکنہ اثرات
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی اب پچیس کروڑ نفوس سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس آبادی کی بنیادی ضروریات ادنیٰ طریقے سے بھی پوری کرنے کے لیے ملکی معیشت کو سالانہ بنیادو…