انسانی آزادیوں کو درپیش خطرات!

مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد
جون 05, 2020 - شذرات
انسانی آزادیوں کو درپیش خطرات!

آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور ہردور کا باشعور انسان اپنے اس حق کے لیے جدوجہد کرتا رہا ہے۔ کہنے کو تو آج کا دور انسانی آزادیوں اور بنیادی حقوق کے حوالے سے بہت سازگار ہے اور ماضی کے انسان کے مقابلے میں آج کے انسان کو آزادی اور حقوق کے حوالے سے زیادہ سازگار مواقع اور ماحول دستیاب ہے، لیکن ہمارے ملک میں گزشتہ ڈھائی، تین ماہ سے جاری صورتِ حال نے اس عہد کے انسان کی اس خوش فہمی کو بھی ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نے ثابت کردیا ہے کہ آج کا انسان سرمایہ داری کے عالمگیریت کے عہد میں اپنے بنیادی انسانی حقوق سے نہ صرف محروم ہے، بلکہ اس کے اب تک کے انسانی شعور کے تسلیم شدہ انسانی حقوق بھی خطرے سے دوچار ہیں۔ موجودہ لاک ڈاؤن میں کرونا وبا کو ایک خاص زاویۂ نظر سے ثابت کرنے اور مخصوص سوچ اور نظریہ منوانے میں جس جبر اور اختیارات کا استعمال ہمارے اربابِ اقتدار کررہے ہیں، اس نے جمہوریت، مکالمے اور آزادیٔ اظہارِ رائے کی روح کو بری طرح سے مجروح کیا ہے، جس سے حریتِ فکر اور انسانی آزادیاں خطروں سے دوچار ہوگئی ہیں۔ 
حال آںکہ ایسے مواقع پر سائنسی اور عقلی بنیادوں پر سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قوم کے اجتماعی شعور کو آواز دی جاتی ہے۔ اس پر بحث اور مکالمے کو فروغ دیا جاتا ہے، تاکہ درپیش صورتِ حال کو ہر پہلو اور زاویۂ نظر سے دیکھا اور پرکھا جاسکے۔ اس کا اہتمام ریاست اور ملک میں موجود مختلف بحث و مباحثے کے فورمز پر ہونا چاہیے تھا، جو نہیں کیا گیا۔ ایک بنی بنائی سوچ پورے معاشرے پر مسلط (impose) کردی گئی ہے اور بالجبر اسے تسلیم کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے میڈیا گروپس نے خوف بانٹنے میں اپنا پورا کردار ادا کرکے اپنے مفادات کو یقینی بنایا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ملک کے وہ حلقے جو مذہب کے مقابلے میں بھی عقل و سائنس کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے دعوے دار ہیں اور اپنے مادی نظریات کے باعث مذہب اور روایات کے مقابلے میں سائنس کے ساتھ کھڑے ہونے کو اپنے شعور سے وفاداری کا اظہار سمجھتے ہیں، وہ بھی موجودہ وبا کی پشت پر کھڑے عالمگیریت کے ترجمان سرمایہ اور ریاست کے جبری فیصلوں پر خاموشی سادھے بیٹھے ہیں۔ 
وباؤں اور انسانی زندگی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ ہر عہد کے انسان کو یہ چیلنجز درپیش رہے ہیں اور ہردور کا انسان اپنے عہد کے شعور، ترقی اور سائنس سے ان کا مقابلہ کرتا رہا ہے۔ آج کے دور کا دردناک المیہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی پر سرمائے کے کنٹرول نے ان وباؤں کو بھی لگام ڈال کر اپنے سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ زندگی کے باقی شعبوں کی طرح میڈیکل سائنس کے شعبے کو جس طرح سرمایہ کنٹرول کرتارہا ہے، یہ ہمارے مشاہدے کی عام چیز ہے۔ کرونا کے بعداب ٹڈی دَل کی تلوار پاکستان کے کسانوں کے سر پر لٹک رہی ہے۔ دیکھئے اسے سائنس کے اَن داتا کیسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، حال آںکہ سائنس کی ترقی کے باعث تو اس وبا سے انسانیت کو ریلیف دیا جانا چاہیے تھا، چہ جائے کہ اسے ایک استحصالی حربے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ 
ایسے جبر پر مبنی اقدامات کا جواب عوامی مزاحمت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ کرونا کنٹرول کے نام پر تیسری دنیا سمیت ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں بھی کوئی خاص مزاحمت سامنے نہیں آئی۔ آمریت اور تشدد کے اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کے تعطل کے لیے جس بے رحمی سے طاقت اور فورسز کا استعمال کیا جا رہا ہے، یہ جمہوری دور میں فسطائی حربوں کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لاک ڈاؤن اور دنیا کو کنٹرول کرنے کے تجربے سے معاشروں میں موجود مزاحمت کی مختلف شکلوں کا بھی جائزہ لیا جارہا کہ مزاحمت کی کس شکل کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ تاجر تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کے با اختیار نمائندوں کو بازار اور مارکیٹ کے عام دوکان داروں سے کاٹنے کے حربے استعمال کرکے ان کی اجتماعیت کو پامال کیا جارہا ہے، تاکہ ان کی مزاحمت کے جذبات کسی اجتماعی تحریک میں نہ ڈھل سکیں۔ حکومت اعلانات کے باوجود عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے، بلکہ اس وبا کے خلاف مختص فنڈز کو بھی منصفانہ طریقوں سے خرچ کرنے میں بُری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ ان مختص فنڈز میں غبن اور کرپشن کی داستانیں زبانِ زد عام ہیں۔ شاید اتنی کرونا کی وبا نہیں پھیلی، جتنی حکومت کی نااہلی اور ہماری افسر شاہی کی ناخدا خوفی سے کرپشن پھیلی ہے۔ 
علاوہ ازیں لاک ڈاؤن نے درمیانے کاروباری طبقوں کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہ بے بس ہوکر اپنی تجارت کی بحالی کے ہر راستے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ یہ جبر انتظامیہ کے لیے پیسے بنانے کا موقع پیدا کر رہا ہے۔ ان کی طلبِ زر کی خواہش کے سبب مارکیٹوں اور فیکٹریوں کے فرنٹ دروازے بند ہیں، لیکن پچھلے دروازوں سے پولیس اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے سب کچھ چل رہا ہے۔ کرونا اقدامات نے کرپشن کے ناسور کو نیا خون فراہم کیا ہے اور ’ایک مریض پر پچیس پچیس لاکھ خرچ‘ کے نام پربے رحمی سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ حکومت کی خواہش پر بعض ایسی طاقتیں بھی سرگرم رہی ہیں، جنھوں نے لاک ڈاؤن کی حمایت کے لیے معاشرے میں اثرورسوخ رکھنے والے طبقات میں رقومات بانٹ کر رشوت کے فروغ میں حکومت کے لیے تعاون ’’علیٰ الاثم‘‘کا کردار ادا کیا ہے۔ 
سرمایہ داری نظام نے انسانی معاشروں پر اپنے اختیار اور کنٹرول کا یہ جو تجربہ کیا ہے، اس کی حمایت اور جواز کے دلائل گھڑنا بھی کسی جرم سے کم نہیں ہے، جسے کسی بھی شکل میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں خالص، بے میل اور سچے نظریے کی آزمائش اور امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کو درپیش اس چیلنج میں کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ ایسے چیلنجز سے انسانی تاریخ بارہا دوچار رہی ہے۔ ایسے غبار آلود ماحول میں جب سچ اور جھوٹ کا فرق مٹ جائے، مفادات اور خوف کی فضا میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہوجائیں، مردانِ حق نے حق سچ کی شمعِ فروزاں روشن کرکے جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے۔ اس تاریخی تسلسل کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری باشعور اور بے لوث اجتماعیت کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ جہد ِمسلسل کو جاری وساری رکھے۔  (مدیر) 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد

مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔