پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے گزر رہا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور مافیاز سرگرم ہیں، جو عوام کو نوچنے کے لیے کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش سے لے کر زندگی کے ہر شعبے کو مہنگائی نے اپنے آہنی پنجے میں جکڑ لیا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی مارکیٹ اور بازار کسی قانون کے تابع نہیں رہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے، وہ کررہا ہے۔
حکومت بنیادی سماجی خدمات اور انسانی حقوق کے تحفظ سے بے اعتنائی برت رہی ہے، جب کہ وہ اپنے اقتدار کو بچانے اور مستحکم کرنے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہر حربہ استعمال کرنے پر اُدھار کھائے بیٹھی ہے۔ سیاست کے چند گرگ باراں دیدہ اپنی خاندانی سیاست کو بچانے کے لیے آئینی تقاضوں کو بھی خاطر میں نہیں لا رہے۔ ان کی دلچسپی عوامی پالیسیوں کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ میں ہے۔
سیاسی اور معاشی اشاریے مستقبل میں پاکستان کی مزید سیاسی اور معاشی ابتری کی نشان دہی کررہے ہیں۔ پاکستان مسلسل معاشی تباہی کے دہانے کی طرف سِرَک رہا ہے۔ پیٹرول، گیس، بجلی، خوراک اور ادویات کی قیمتوں میں ہوش رُبا گِرانی نے انسانوں کی زندگیوں کو دوبھر کردیا ہے۔ بیوروکریسی اور اقتدار پر قابض اشرافیہ ملک کو درپیش چیلنج کی سنگینی سے ابھی بھی لا پرواہ نظر آرہی ہے۔ وہ اس سے اب بھی اقتدار کی جنگ کے طور پر نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے مسلسل انحطاط اس کا مقدر کیوں ٹھہر چکا ہے؟ بدعنوانی، اقربا پروری، خراب حکمرانی اور اس کی معاشی تباہی حد سے کیوں بڑھ رہی ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے کے باوجود مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ پڑوسی ملک کو تو چھوڑیے، زندگی کے کسی میدان میں اس کی مثال ہماری رگِ قومیت کو بھڑکا دیتی ہے اور ہم مثبت سوچنے کے بجائے ماضی کی سیاست کے گڑے مُردے اُکھاڑنے بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ جنوبی کوریا کو دیکھ لیجیے! جو ایک ناکام ریاست کہلاتی تھی، لیکن آج دنیا کی دسویں بڑی معیشت کہلاتی ہے۔ 1949ء میں انقلاب سے ہم کنار ہونے والا چین آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔ اَور تو اَور بنگلا دیش، سنگا پور اور ملائیشیا جیسے ممالک جو پس ماندہ اور غریب تھے، لیکن وہاں کی قیادتوں کے درست فیصلوں کے نتیجے میں بہتر سے بہتر کے سفر پر گامزن ہیں۔اس کے علی الرغم ہماری حکمران اشرافیہ نے پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، ڈاک خانہ، سٹیل ملز اور پبلک سیکٹر کے مزید ادارے اپنی نااہلی، کرپشن اور اقربا پروری سے تباہ کرڈالے اور پاکستان کو ایک ایسے غار میں تبدیل کردیا ہے، جس میں کہیں بھی روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی اور قوم کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج بھی پاکستان پر مسلط کرپٹ اشرافیہ اپنے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث ملک اور قوم کو اس دلدل سے نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، بلکہ وہ معاشی طور پر تباہ اس ملک میں اپنے بے پناہ اختیارات کے باعث اپنی ناجائز مراعات کو ہر حال میں بحال رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان جس کی معیشت‘ قرضوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے اور جہاں ایک عام آدمی کے لیے دو ٹائم کا کھانا حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے، اس ملک کی نوکر شاہی دنیا کے متمول ملکوں برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور انتہائی مہنگے داموں ملازمین رکھنے والے ادارے اقوامِ متحدہ سے بھی زیادہ اور بڑی مراعات لے رہے ہیں۔ اور یہاں حکمران اشرافیہ اور ان کے سہولت کار بڑے سرکاری ملازموں کا شاہانہ طرزِ زندگی اختیار کرکے قومی خزانے سے بے تحاشہ دولت لوٹنے کا سبب بن رہا ہے۔
صرف پنجاب جیسے صوبے میں 8 ہزار 975 کنال پر 403 ارب کے سرکاری بنگلے، ان کی دیکھ بھال پر سالانہ 10 ارب روپے سے زیادہ خرچہ ترقیاتی فنڈ سے ان رہائش گاہوں میں تزئین و آرائش کے لیے اربوں روپے کے فنڈز لاہور کے جی او آر وَن جیسے مہنگے علاقوں میں 5 سے 56 کنال کی عالی شان رہائشیں سیکرٹریز کے گھروں پر بہ یک وقت بیسیوں ملازمین کی موجودگی کے علاوہ لگژری گاڑیوں اور بے تحاشہ پیٹرول کی مد میں لاکھوں روپے کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ان قانونی اور ضابطے کی سہولیات کے علاوہ یہ طبقہ اپنے اختیارات سے جو کچھ حاصل کرتا رہتا ہے، اس کی کوئی حد اور حساب ہی نہیں ہے۔ اور اس اشرافیہ حکمران طبقے کی طرف سے عوام کے نام چائے کی ایک پیالی اور کبھی ایک روٹی کم کرنے کی اپیلوں کا ناٹک بھی کیا جاتا ہے۔
ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا سلوگن الاپنے والی حکومت آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ اس کے پاس ایسی کوئی پالیسی نہیں، جس سے وہ قوم کو اس عذاب سے نجات دلوا سکے، بلکہ وہ اب بھی آئی ایم ایف سے معاہدے کے بدلے ڈالروں کی نئی قسط کی منتظر ہے۔ پاکستان اس وقت جس سنگین معاشی بحران میں گھرا کھڑا ہے، اس سے نکالنے کے لیے اس حکمران اشرافیہ کے پاس کوئی ویژن نہیں ہے۔ یہ جھوٹے نعروں کے ذریعے عوام کو مزید دھوکا دینے کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ اس صورتِ حال کو خطرناک طرزِ معاشرت سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’یہ شاہانہ نظامِ زندگی، جس میں چند اَشخاص یا چند خاندانوں کی عیش و عشرت کے سبب دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کر کے عوام کو اس مصیبت سے نجات دلائی جائے اور اُن کو مساویانہ نظامِ زندگی کا موقع دیا جائے‘‘۔ لیکن یہ کام ہمارے ملک کی روایتی سیاسی جماعتوں کے بس کا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک انقلابی ویژن کی حامل تاریخی شعور رکھنے والی ایک منظم قوت کی تشکیل کی ضرورت ہے، جو اس ملک میں موجود نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ (مدیر)
ٹیگز
مولانا محمد عباس شاد
مولانا محمد عباس شاد پنجاب یونیورسٹی لاہور اور جامعہ اشرفیہ کے فاضل اور ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ "رحیمیہ" اور سہ ماہی "شعور و آگہی" (لاہور) کے مدیر اور دارالشعور پبلشرز لاہور کے چیئرپرسن ہیں۔ ماہنامہ الصدق کے مدیر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
قومی اور سماجی مسائل کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے حالاتِ حاضرہ ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے۔ ماہ رحیمیہ میں گزشتہ کئی سالوں سے "شذرات" کے نام سے اداریہ لکھ رہے ہیں ۔
متعلقہ مضامین
تبدیلیٔ نظام؛ وقت کی سب سے بڑی ضرورت
آج کل ہماری معیشت جن تجربات سے گزر رہی ہے، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وں نے اپنے ہی سابقہ ادوار سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز می…
امریکی اِنخلا اور افغانستان کی تعمیرِنو
اقوامِ عالَم میں ایشیا ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وسائل اور رقبے کے اعتبار سے تو سب سے بڑا ہے ہی، لیکن جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بھی قوموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ گرم…
پاکستان میں غلبۂ دین کے عصری تقاضے
ہم نے گزشتہ مہینے انھیں صفحات پر پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی جدوجہد کے تناظر میں دو اہم سوالوں کے جوابات کے ضمن میں دو انتہاؤں کا جائزہ لیاتھا کہ وہ کیوں کر غلط ہیں۔ آج…
ایشیائی طاقتیں اور مستقبل کا افغانستان
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بہ قول ’’مغلوں کے دور میں ہندوستان پوری دنیا کی مجموعی پیدا وار کا 24 فی صد حصہ اکیلا پیدا کرتا تھا، لیکن برطانیہ نے اسے لوٹ …