رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما تے وقت حضرت سعید بن العاصؓ کی عمر 9 سال تھی۔ آپؓ یتیم تھے اور آپؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کی گود میں پرورش پائی۔ فتحِ شام پر حضرت امیرمعاویہؓ کے پاس تعلیم کی غرض سے رہنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے افرادِ قریش کو یاد کیا اور حضرت سعیدؓ کا تذکرہ ہوا تو حضرت امیرمعاویہؓ کو حکم دیا کہ انھیں (میرے پاس) مدینہ بھیج دو۔ جب ملاقات ہوئی تو حضرت عمرؓ نے آپؓ کی قابلیت و صلاحیت کی تعریف کی اور فرمایا: ’’اپنی صلاحیتوں کو اَور بڑھاؤ‘‘۔ حضرت عثمانؓ نے انھیں واپس بلاکر شادی کرائی۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت ۳۰ھ میں ہی کوفہ کے گورنر بنے اور طبرستان اور وسط ایشیا کے کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے اختلافِ قرأت کی طرف توجہ دلائی اور کوفہ میں مجلس بیٹھی، مگر نتیجہ نہ نکلا تو حضرت عثمانؓ نے جمع قرآن کے لیے ایک کمیٹی بنائی، جس میں حضرت سعیدؓ بھی تھے۔ آپؓ کے ذمے اس کی عربیت کی نوعیتوں کا خیال رکھنا تھا۔ آپؓ ’’أفصحُ النّاس‘‘ اور ’’أعربُ النّاس‘‘ مشہور تھے۔ (تاریخ ابن خلدون)
حضرت ثعلبہ بن زہدم الیربوعی کہتے ہیں کہ ہم طبرستان کی جنگ میں امیرِلشکر حضرت سعیدؓ کے ساتھ تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ آپؐ کی نماز ِخوف کسے یاد ہے؟ تو حضرت حذیفہؓ نے کہا مجھے یاد ہے۔ آپؓ نے ایک صف حضرت حذیفہؓ کے پیچھے کھڑی کی اور دوسری دشمن کے مقابل۔ اس طرح نماز ِخوف سنت کے مطابق ادا کروائی۔ (بغوی)
حضرت سعیدؓ کی نسلوں میں بھی علم و تفقّہ کا سلسلہ جاری رہا، جن کو اہلِ علم نے ثقات کا درجہ دیا ہے۔ حضرت سعیدؓ کریم، سخی اور قابلِ تعریف تھے۔ آپؓ لوگوں میں سے لہجے کے اعتبار سے رسول اللہؐ کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ ( تفسیر ابن کثیر) حضرت سعیدؓ کا قول ہے کہ: ’’میرے شریکِ مجلس کے مجھ پر تین حق ہیں: (1) جب قریب آئے تو خوش آمدید کہوں۔ (2) جب بات کرے تو پوری توجہ دوں۔ (3) جب بیٹھ جائے تو اس کے لیے وسعت اختیار کروں‘‘۔ آپؓ نے اپنے بیٹے عمرو کو وصیت کی کہ: ’’میری بیٹیوں پر سختی مت کرنا‘‘۔ فرمایا کہ: ’’اگر میں اپنے بچے کو قرآن حکیم پڑھا دوں، دلائل سے بات کرنا سکھلادوں اور اس کی شادی کرادوں تو میں نے اس کا حق اداکردیا اور میرا حق اس پر ابھی باقی ہے‘‘۔ حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ مدینہ کے گورنر بنے اور اسی عہد میں آپؓ نے ۵۸ھ میں وفات پائی۔ جب حضرت سعیدؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ: ’’میرے بعد میرے بھائیوں کو مت کھو دینا۔ ان کے ساتھ وہی رویہ رکھنا، جو میں ان کے ساتھ رکھتا تھا اور وہی کرنا جو میں کرتا تھا۔ ایسی نوبت مت آنے دینا کہ وہ تمھارے آگے دستِ حاجت دراز کریں۔ کیوںکہ جب کوئی آدمی اپنی کسی ضرورت کا ذکر کرتا ہے تو وہ بہت گھبرایا ہوا اور شرم سار ہوتا ہے۔ اس کی زبان لڑکھڑاتی ہے اور ضرورت اس کے چہرے سے جھلکتی ہے۔ ان کے سوال کرنے سے پہلے ان کی ضرورت پوری کر دینا‘‘۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔