حضرت سعید بن عاص اُموی رضی اللہ عنہٗ کے دادا أبو اُحَیحَہ کے نام سے مشہور تھے اور قریش کے سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ کے دادا جس رنگ کا عمامہ پہنتے تھے، ان کی عزت و تکریم کی وجہ سے اس رنگ کا عمامہ مکہ میں کوئی اور نہ پہنتا تھا۔ اور ان کا لقب ’’ذو التاج‘‘ تھا۔ حضرت سعیدؓ بن عاص ہجرت والے سال پیدا ہوئے۔ صغارِ صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے وقت آپؓ کی عمر 9 سال تھی۔ رسول اللہ ﷺ سے آپؓ کا حدیث کی روایت کرنا بھی ثابت ہے ۔ نیز آپؓ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عائشہؓ سے بھی احادیث روایت کرتے ہیں۔ آپؓ سے روایت کرنے والے آپؓ کے دو بیٹے یحییٰ اور عمرو، اور سالم بن عبد اللہ بن عمر اور عروہ بن زبیر ہیں۔
حضرت سعیدؓ کے والد عاص غزوۂ بدر کے دن کفر کی حالت میں مارے گئے۔ ان کو حضرت علیؓ نے قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے ایک بار حضرت سعیدؓ سے فرمایا کہ: ’’میں نے تمھارے والد کو قتل نہیں کیا، میں نے تو تمھارے ماموں عاص بن ہاشم کو قتل کیا تھا اور میں مشرک کے قتل سے عذر بھی پیش نہیں کرتا‘‘۔ حضرت سعیدؓ نے فرمایا: ’’ہاں! اگر آپ نے ان کو قتل کیا تو آپ حق پر تھے اور وہ باطل پر تھے‘‘۔ حضرت عمرؓ کو آپؓ کے اس قول سے بہت تعجب ہوا کہ انھوں نے احوال کا درست تجزیہ کیا، ضد اور تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔
حضرت سعیدؓ بن عاص کاشمار قریش کے سرداروں اور انتہائی سخی لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپؓ فصاحت اور بلاغت میں بھی اہم ترین اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ اُس ٹیم کا بھی حصہ تھے، جنھوں نے حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں قرآن حکیم یعنی ’’مصحفِ عثمانی‘‘ کی کتابت کی خدمات سرانجام دیں۔ گویا آپؓ علمی صلاحیتوں کے حامل تھے اور علمی و تحقیقی سرگرمیوں کا حصہ رہے ہیں۔ آپؓ عہدِ عثمانی میں کوفہ کے گورنر بھی رہے۔ انتظامی اعتبار سے بھی صلاحیت و استعداد کے مالک اور بڑے کمالات رکھتے تھے۔ اسی لیے انھیں اجتماعی اور حکومتی معاملات کی ذمہ داریوں پر فائز کیا گیا۔ حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد فتنوں کا دور شروع ہوا تو آپؓ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی، تاہم بعد میں حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے دور میں آپؓ کو مدینہ منورہ کا گورنر بنایا۔
حضرت سعیدؓ بن عاص انتہائی عمدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ جب سائل کچھ مانگتا اور پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو بیت المال میں سے دے کر اسے اپنے کھاتے میں بہ طورِ قرض لکھ لیتے اور جب مال میسر آتا تو ادا کردیتے۔ آپؓ کے معمولات میں سے تھا کہ ہر جمعہ کو ہفتہ وار اپنے بھائیوں کو دعوتِ طعام پر جمع کرتے اور انھیں اچھا لباس دیتے اور دیگر مواقع پر ہدایا بھیجتے رہتے، اور ان کے اہل وعیال کے لیے وافر گندم بھیجتے تھے۔ آپؓ ہر جمعہ کی رات میں کوفہ کی جامع مسجد میں اپنے غلام کو دینار کی تھیلیاں بھری ہوئی دے کر بھیجتے اور نمازیوں میں دینار اور سونے کے سکے تقسیم کراتے تھے۔ جمعہ کی رات کو نمازی بھی مسجد میں بہت زیادہ آجاتے تھے، مگر ان کا معمول جاری رہتا تھا۔ آپؓ طبرستان اور جرجان کے معرکوں میں سردار بن کر شریک ہوئے اور۲۹ھ میں انھیں فتح کیا۔ آپؓ نے۵۸ہجری میں وفات پائی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔