حضرتِ اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طریقۂ تعلیم و تربیت

ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن
ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن
ستمبر 15, 2021 - سوانح عمری
حضرتِ اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طریقۂ تعلیم و تربیت

حضرتِ اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طریقۂ تعلیم و تربیت
از:  حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر سعیدالرحمن

 

اسلام کے اخلاقی نظام کا مطمح نظر:
اس دنیا میں انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی تعاون پر ہے۔ یہ بنیادی اساس ہے۔ اسلام کی تعلیمات نہایت جامع ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں اور بڑی مفصل ہیں۔ ان تمام تعلیمات کا اگر مختصر ترین اور جامع ترین خلاصہ نکالا جائے تو وہ یہ ہے کہ انسان بااَخلاق ہوں۔ اب یہ اَخلاق کیا چیز ہوتی ہیں؟ یہ کسی کتاب کے پڑھنے کا نام نہیں ہے، کسی ڈگری کے حصول کا نام نہیں ہے۔ اَخلاق نام ہے اس کا کہ آپ کا اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہے؟ آپ کی نظر میں دوسرے انسان کا کیا مقام ہے؟ آپ کے دل میں اُس کے حقوق کا کتنا احساس ہے؟ کیا آپ اپنی ذات میں مگن ہیں یا دوسروں کے حقوق کو آپ کی ترجیحات میں کوئی دخل ہے؟ یہیں سے ایک انسان کی پرکھ ہوتی ہے۔ اور یہی چیز کسی بھی ادارے کی، کسی بھی معاشرے کی اور کسی بھی ملک کی بنیادی اساس ہوتی ہے۔ جس سوسائٹی میں باہمی حقوق کا نظام موجود ہو، ایک دوسرے کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ ہو اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کا رشتہ ہو، وہ انسانی سوسائٹی ہوتی ہے، ترقی یافتہ سوسائٹی ہوتی ہے اور بااَخلاق سوسائٹی ہوتی ہے۔ اور جس میں خود غرضی ہو، حقوق کی ادائیگی کے بجائے حقوق کا استحصال ہو، لوٹ مار ہو، خود غرضی ہو، مفادپرستی ہو، تو وہ  تباہ حال معاشرہ ہوتا ہے۔ ایسی قوم زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتی، بلکہ جلد ختم ہوجاتی ہے۔


خانقاہی نظام کے مقاصد و اہداف: 
انبیاء علیہم السلام کی کل جدوجہد کا آخری نچوڑ یہی ہے کہ سوسائٹی بااَخلاق بن جائے، اس میں حقوق کی پہچان پیدا ہوجائے اور ایک ایسا معاشرہ ترتیب پاجائے کہ اس میں کسی کو کسی پر بالادستی اور برتری، ان معنوں میں حاصل نہ ہو کہ وہ کسی بڑے طبقے سے تعلق رکھتا ہے ، کسی مفاد پرست ٹولے سے تعلق رکھتا ہے اور اس نے وسائل یا اختیارات پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنا بڑا مشن اُس وقت تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا، جب تک کہ اعلی اَخلاق پر کوئی تربیت یافتہ جماعت نہ ہو۔ اس لئے سب سے پہلے اُس جماعت کو تیار کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر جاکر سوسائٹی اس درجے کی تبدیلی کے قابل بنتی ہے۔ اصل میں تو یہ کردار خانقاہوں کا رہا کہ وہاں پر افراد سازی کی محنت ہوتی تھی۔ موجودہ دور میں عام طور پر خانقاہیں اپنا وہ کردار کھو بیٹھی ہیں۔ اب وہ خانقاہیں نہیں رہیں اور وہ تربیت کے ادارے نہیں رہے، بلکہ اُن کا عنوان بھی بدل گیا ہے، وہ دربار کہلاتے ہیں۔ جن کو کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کا حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کتنی بد قسمتی ہے کہ بڑے بزرگوں کے نام پر آج جو لوگ  اُن کی جگہ پر بیٹھے ہیں، وہ معاشرے کا بدعنوان طبقہ کہلاتے ہیں۔ یہ معاشرے کا اتنا بڑا المیہ ہے کہ مذہب کے عنوان سے اور بڑے بڑے بزرگوں کے نام سے تو ان کا تعارف ہے، لیکن سوسائٹی میں وہ ظلم پیشہ طبقے کا حصہ ہیں۔ جس کی وجہ سے آج کا نوجوان خانقاہ کے ادارے کے نام سے ہی متنفر ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو فرسودگی کی علامت سمجھتا ہے ،ترقی دشمنی کی علامت سمجھتا ہے اور رجعت پسندی کی علامت سمجھتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ آج سوسائٹی میں اَخلاقی تربیت کے ادارے ختم ہوکر رہ گئے ہیں۔
 اسی طرح خاندان تربیتی ادارہ ہوتے ہیں ، خاندانی نظام میں ایک بچے کی نہ صرف پرورش ہوتی تھی، بلکہ اُس کی بنیادی تربیت کی چیزیں اس کو سکھائی جاتی تھیں اور بتائی جاتی تھیں، جس سے اُس کے مزاج میں بنیادی اخلاقیات کی اہمیت پیدا ہوتی تھی۔ اور آج کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ موجود نظام میں خاندان کے اس نظام کو برباد کردیا گیا۔ آج ایک چھت تلے ماں باپ اولاد موجود تو ہیں، لیکن آپس میں بیگانگی ہے۔ اُن کا آپس میں جو ایک تعلق ہونا چاہیے، وہ تعلق مفقود ہے۔ آج وہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ حالات کے مطابق سمجھوتہ کرتے ہیں۔اب اس کی جگہ پر میڈیا آگیا ہے اور اس کی جگہ پر انٹرنیٹ آگیا ہے جس نے ہر انسان کو اپنے گرد و پیش سے بیگانہ کردیا۔ اب ہر ایک کی اپنی انفرادی ترجیحات ہیں، پھر کہاں سے اس کو تربیت ملے۔ آج کے دور میں یہ اتنا بڑا بحران ہے، کہ جس کی طرف ہمارے معاشرے کے سوچنے والے طبقات کی کوئی توجہ نہیں۔ 


حضرت رائے پوری رابع ؒ کی تربیتی حکمتِ علمی:
اس اَخلاقی بحران کے ماحول میں ہمارے حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے یہ بنیادی کام کیا، کہ نوجوانوں کو اپنے سے مانوس کیا اور اپنے مقام اور اپنے مرتبے کو کبھی بھی اس مقصد میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں بہت ساری وہ باتیں جو ہم صرف کتابوں میں پڑھتے ہیں، عملی طور پر سامنے آئیں۔ وہ باتیں جو ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں ملتی ہیں، جن کو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ صرف آپؐ کا معجزہ ہیں، وہ زندہ ہوگئیں۔ یہ بھی آج مذہب کا ایک المیہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو اس کو بیان کرنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کے کچھ معجزاتی کارنامے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی بھی اختیار نہیں کرسکتا، ان کی پیروی نہیں کرسکتا۔ حالانکہ یہ واضح طور پر قرآنِ حکیم اور رسول اللہؐ ﷺ کی اپنی تعلیمات کے مخالف ہے۔ قرآن نے بار بار اطاعت ِرسول اور اتباعِ رسول کی بات کی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی کو اختیار کیا جائے، ان کے نقش قدم پر چلا جائے، لیکن آج کے دور کے مفاد پرست طبقے کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی نامناسب بات کرے، اس لیے ان کی حکمت ِعملی یہ بن گئی کہ آپؐ کی سیرت کو اس نظریہ کے ذریعہ  معاشرے سے کاٹ دیا جائے کہ یہ اللہ کا ایک معجزہ تھا کہ اللہ نے اس طرح کی ایک شخصیت دنیا میں بھیجی تھی اور آپؐ کے ساتھ ہی اُس زندگی کا دروازہ بند ہوگیا۔


صحبتِ صالح کے اثرات: 
حقیقت یہ ہے کہ ان عظیم شخصیات نے جو تاریخ میں موجود رہی ہیں، انھوں نے تو درحقیقت اسی تصور اور تأثر کو ختم کیا۔  رسول اللہؐ کی جو سیرت اور زندگی ہے، وہ تو معاشرے میں جاری ساری رہنے کے لیے آئی ہے۔ یہ تو معاشرے میں تحریک پیدا کرنے کے لیے آئی ہے۔ یہ تو معاشرے میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے ایک نمونے کی زندگی ہے۔ اور اسی لیے آپ دیکھیں کہ رسول اللہؐ کے گرد و پیش جو لوگ جمع ہوئے، آپ کی صحبت میں رہے، آپ کی تربیت میں رہے اور آپ کی خدمت میں رہے، انھوں نے اس سیرت کو اپنی زندگیوں میں اتارنے کی کوشش کی۔ اور اسی و جہ سے وہ لوگ اُس راستے پر چل پڑے کہ اللہ کے رسول اپنی زندگی میں جزیرۃ العرب میں تبدیلی لاتے ہیں اور آپ کی صحبت یافتہ جماعت قیصر و کسریٰ کے نظام توڑتی ہے، یہ سیرت کا اعجاز ہے۔ بے عملی کا سیرت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیرت کا اعجاز یہ ہے کہ وہ معاشرے میں تحریک پیدا کرے۔ انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرے۔ 


حضرت رائے پوری رابع ؒ کی جدوجہد کی خصوصیات:
حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے یہ بنیادی کام کیا کہ جو تاریخ کا ایک تسلسل ہے، اس کو نوجوان نسل تک منتقل کردیا۔ نوجوانوں کے ذہن میں یہ امید جگا دی، یہ عزم پیدا کردیا کہ سیرتِ رسول اور سیرتِ صحابہ محض کتابوں کی چیز نہیں ہے، یہ تو آج بھی ایک رہنما حیثیت رکھتا بہے۔ آج بھی آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے والا سب سے بڑا محرک ہے۔ اور پھر جو بھی تبدیلی پیدا کرنے والا ہوتا ہے، اس کو سب سے پہلے جس تبدیلی کے لیے وہ کوشاں ہوتا ہے، اُس کا نمونہ بننا پڑتا ہے، اسی کو ’’مجاہدہ‘‘ کہتے ہیں۔ جو سوسائٹی میں تبدیلی کے لیے جدوجہد اور جہاد کرتا ہے، سب سے پہلے اس کو اپنی ذات کے ساتھ مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ پھر جاکر وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سوسائٹی کی بڑی سے بڑی قوت چیلنج کرتا ہے، اس کے دباؤ سے وہ سوسائٹی کے لوگوں کو نکالتا ہے۔ اس کی عظمت یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ سوسائٹی سے کٹا ہوا نہیں ہوتا۔ 
جس طرح رسول اللہؐ کی سیرت میں پڑھتے ہیں کہ مدینے کی گلی میں کبھی کبھار ایک خاتون جو مجنون اور دیوانی تھی ، اپنی بات سنانے کے لیے رسول اللہ کو روک لیتی۔ تو آپؐ کھڑے ہوجاتے، اُس کی لایعنی باتیں سنتے۔ جب تک وہ اپنی باتیں کرتی رہتی۔ صرف اس لیے کہ اس کا دل نہ ٹوٹے۔ یہ وہ اَخلاق ہیں، اور اسی کا ہم نے اپنے حضرت رحمۃ اللہ علیہ میں نمونہ دیکھا۔ کہ بسا اوقات ایک نوجوان کوئی کام کی بات نہیں کرتا اور اپنا قصہ کہانی لے کر بیٹھا ہوا ہے، کبھی حضرت نے اس کو محفل سے نہیں اٹھایا، کبھی اپنے معمولات کی بات نہیں کی کہ میرے معمولات متأثر ہو رہے ہیں۔ یوں آپ نے نوجوانوں کے دل موہ لیے۔ یہی وہ چیز ہے کہ جس کا اظہار حضرت کے جنازے کے موقع پر  آنے والے لوگ کر رہے تھے۔ عام طور پر جب ایک بزرگ خاندان سے اٹھتا ہے تو چند آدمی ہی ہوتے ہیں، جن کے دل میں افسوس ہوتا ہے۔ اکثر کی رائے میں اس کا وقت تھا تو چلا گیا۔ لیکن یہاں نوجوان تھے، جن کی آنکھیں تھم نہیں رہی تھیں۔ ایک عجیب منظر تھا کہ یہ نوجوان جن کا حضرت سے کوئی خونی رشتہ نہیں بلکہ صرف اور صرف ایک اَخلاق اور محبت کا تعلق ہے، آپ نے کتنے ہزاروں دلوں کو اپنی طرف کھینچ کر دین کی محبت سے جوڑا، اُن کے دلوں میں دین کے انقلاب کی تڑپ پیدا کی۔ یہی بڑی تبدیلی ہے۔ بزرگوں کو کسی مخصوص حوالے سے یا کشف و کرامت سے نہیں پہچانا جاتا، بلکہ ان کا سب سے بڑا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے قلوب میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔ حضرت اقدس رائے پوریؒ نے نوجوانوں کو چاروں طرف سے مسلط فاسد اَخلاق کی بربادی کے ماحول سے نکال کر ان کو دین کے غلبے کے لیے نظریے اور اس پر محنت اور جدوجہد کی مصروفیت دی۔ 


حضرت رائے پوری رابعؒ کی تربیت کے اثرات:
آج حضرتؒ سے وابستہ ایک نوجوان غلبہ دین کی بات کر رہا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جتنا وہ سمجھ چکا ہے، اتنا دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی اصل چیز ہوتی ہے کہ اپنی ذات کی نفی کی جائے۔ اپنے مقام و مرتبے کا کسی پر رعب قائم کرنے کی بجائے اُس سطح پر چلے جانا، جس سطح پر وہ شخص کھڑا ہے۔ اسوۂ نبی اسی چیز کا نام ہوتا ہے۔ نبی کے جانشین انھی لوگوں کو کہا ہے، کہ وہ نبوت کے اخلاق کو اپنے اندر  سمو لیتے ہیں۔ اور معاشرے میں دلوں کے اندر امن پیدا کرتے ہیں، دلوں کے اندر سکون پیدا کرتے ہیں، اطمینان کا درس دیتے ہیں۔ خوف سے نکالتے ہیں۔ جب حضرتؒ کی صحبت میں کوئی نوجوان آجاتا تو وہ اس کو ہمہ قسم کے دباؤ سے اور خوف سے نکال کر جرأت مند بناتے۔ یہی وہ بنیادی چیز ہے، جسے تربیت کہا جاتا ہے اور حضرت کی ساری محنت اسی چیز پر رہتی ہے کہ نوجوانوں کو دین کے نظام کے حوالے سے دین کی اجنبیت سے نکالا جائے اور ان میں یہ جذبہ پیدا کردیا جائے کہ وہ معاشرے میں اس دین کو غالب کرنے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ 
کتنے ہی خاندانوں کے بزرگ ملے ہیں اور انھوں نے حضرت کی اس تحریک کا شکریہ ادا کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت متفکر تھے، کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا، بات ہماری وہ سنتے نہیں تھے، اور جب ہم نے ان میں یکایک تبدیلی محسوس کی تو ہمیں تجسس ہوا، ہماری بات تو کبھی سنتے نہیں تھے، ہمارا کہا سنا ہمیشہ ٹالتے تھے، یہ تبدیلی کہاں سے آئی؟ تو ہم کھوج لگاتے لگاتے حضرتؒ تک پہنچ گئے۔ انھوں نے کہا کہ: ہماری درخواست ہے کہ آپ ان نوجوانوں پر محنت جاری رکھیں۔ ہمارا تو مفت کا کام ہوگیا کہ کاہل تھا، کام کرنے والا بن گیا۔ بدزبان تھا، بات ماننے والا بن گیا۔ کسی کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار نہیں تھا، اب ہر کام میں آگے بڑھ کے تعاون کرتا ہے۔ یہ وہ تربیت ہے، جو حضرت نے نوجوانوں کے دروازوں پر پہنچ کر دی۔ عام تأثر تو یہی ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، لیکن یہاں کیفیت یہ تھی کہ حضرت خود نوجوانوں کے پاس گئے۔ اور اُن کے ان اوقات میں پہنچے، جس کو مناسب دیکھتے۔ 


حضرتؒ سے متعلق ایک ناقابل فراموش واقعہ: 
بہت ہی ابتدائی بات ہے جب حضرت سے تعارف ہوا، 1974ء کی بات ہے، حضرت کراچی تشریف لائے۔ سید مطلوب علی زیدی صاحب بھی ان کے ساتھ تھے۔ جمعیت طلبائے اسلام کے ایک یونٹ کی ذمہ داری میرے پاس تھی۔ حضرت کی محفل میں بیٹھے ہوئے میں نے حضرت کو دعوت دے دی کہ حضرت! ہمارے یونٹ میں تشریف لائیں۔ کچھ نوجوانوں سے ملاقات ہوجائے۔ اس وقت نہ اتنی سمجھ تھی کہ کیسے تشریف لائیں گے، کیا طریقہ ہوگا،  ہے، ظاہر ہے حضرت کراچی کی سڑکوں سے واقف نہیں ہیں۔ مقررہ وقت پر ، اُس دن حضرتؒ، زیدی صاحب کو لے کر پہنچ گئے۔ جن نوجوانوں سے میں نے رابطہ کیا تھا، اُن میں سے صرف ایک نوجوان مل سکا۔ اُس کو بٹھا دیا۔ پریشانی بھی بہت ہوئی کہ حضرت تشریف لائے ہیں اور آدمی بھی کوئی نہیں ہے۔ میں اس نوجوان کو بٹھا کر پھر نکل پڑا کہ شاید ان میں سے کوئی اور بھی مل جائے کہ جن کو کہہ رکھا ہے۔ سوئے اتفاق سے کوئی نہیں ملا۔ اس پورے عرصے میں جو کہ ایک گھنٹے کا وقفہ ہوگا، حضرت اُس ایک نوجوان سے غلبہ دین کی بات کرتے رہے۔ جب میں نے آکر معذرت کی کہ کوئی اور نہیں ملا، تو فرمانے لگے کہ: "ایک نوجوان مل گیا ہے، یہی بڑی بات ہے، ایک مل گیا۔ ہم نے کیا کرنا ہے"۔ حضرت کیسے وہاں پہنچے، کیسے وہاں سے تشریف لے گئے، کچھ بھی یاد نہیں۔ اب یہی سمجھنے کی بات ہے کہ ایک نوجوان کو سمجھانے کے لیے حضرت نے سارا وقت صرف کردیا۔ اور اس پر بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔


حضرت اقدس رائے پوری رابع کا تربیتی معمول: 
یہ حضرت کی زندگی کا معمول تھا کہ کسی بھی موقع پر یہ نہیں جتایا کہ ان کا کوئی وقت ضائع ہوگیا۔ ہمیشہ یہی انداز رہا کہ جس سے بات کی جا رہی ہے، اُس کو اُس کی اہمیت کا احساس دلایا، جیسے وہ اہم شخص ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ  آج کے دور میں حضرت نے اپنے اس اندازِ تربیت سے پاکستان میں الحمد للہ اتنی بڑی تعداد نوجوانوں کی جمع کردی، جو اس وقت پورے پاکستان میں بلامبالغہ کسی بھی خانقاہ کے پاس نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے حضرت نے اپنی زندگی کو ایک مثال بنایا، مجاہدے کی زندگی بسر کی۔ اور اپنے اس مشن کی خاطر انھوں نے ہر قسم کے الزام کو برداشت کیا، ہر قسم کی بدزبانی کو برداشت کیا۔ جو کچھ لوگ کہہ سکتے تھے، انہوں نے کہا۔ کسی کے ایمان پر حملہ سب سے آخری چیز ہوتی ہے، یہاں ایسا کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کو اتنا بھی احساس نہیں ہوا، اتنا بھی خوف نہیں آیا کہ یہ تو کسی کا شعبہ ہی نہیں ہے کسی کے ایمان کو جانچو۔ قرآن رسول ﷺ سے کہتا ہے: (22:88) کہ آپ داروغے نہیں ہیں۔ مگر آج افسوس کہ جو مذہب کے نام پر کام کرنے والے لوگ ہیں، وہ اپنے آپ کو اس منصب پر فائز کرچکے ہیں کہ جس کو چاہیں اسلام سے نکال دیں۔ یہ ساری صورتِ حال بڑا المیہ ہے، لیکن حضرتؒ نے اپنے عزم و استقامت سے اس ساری صورتِ حال کا مقابلہ کیا اور نوجوانوں سے تعلق قائم کیا۔ اصل تو درد ان لوگوں کو یہی تھا۔ چنانچہ کہا جاتا تھا کہ: "حضرت اپنے مقام کا خیال نہیں رکھتے، نوجوانوں میں گھل مل جاتے ہیں، ان کی لایعنی باتیں سنتے رہتے ہیں"۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ حضرت نے اپنے اس انداز سے کتنے نوجوانوں کی زندگیاں بدل دیں۔ کتنے خاندانوں کی زندگیاں بدل دیں۔ اور اصل چیز تو یہی تھی کہ دلوں پر حکومت کی۔


حضرت رائے پوری رابع کے مشن کی ترو تازگی: 
الحمد للہ حضرتؒ کا یہ مشن زندہ ہے۔ اور اُن نوجوانوں کی صورت میں زندہ ہے، جن سے حضرتؒ کو توقعات تھیں۔ ظاہر ہے انسان کی ایک طبعی عمر ہے، اس کو اس نے پورا کرنا ہے، لیکن جو بنیادی فکر اور مشن ہوتا ہے، اُس کی بنیادی روح یہی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے یہ مشن حضرتؒ آپ کو سونپ گئے، اپنی جماعت کو سونپ گئے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس مشن کو اُسی عزم کے ساتھ، اُسی ولولے کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ اور حضرت نے اپنے جن ساتھیوں پر اعتماد کیا، اُن سے بھی جڑے رہیں۔ حضرت مفتی عبدالخالق آزاد صاحب کو حضرت کا اعتماد حاصل رہا، اب ان شاء اللہ اس خانقاہی سلسلے کو وہ دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح حضرت اقدس رائے پوری رابع رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت کا جو سلسلہ ہے، وہ جاری و ساری ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ جو کچھ ہم نے حضرت اقدسؒ سے سیکھا، حضرتؒ کے جس مشن سے تعلق ہوا، وہ مشن اب بھی موجود ہے۔ ا س مشن کو جب تک ہم قائم و دائم رکھیں گے، حضرت اقدسؒ کی روح بھی ان شاء اللہ مسرور رہے گی۔ اور یہی حضرتؒ کے لیے سب سے بڑا ایصالِ ثواب ہے کہ ان کے مشن کو جاری و ساری رکھا جائے۔ یہی حضرت اقدسؒ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ 
( اللہ تعالیٰ ہمیں ولی اللہی اکابرین کے مشن پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین)

ماخذ: ماہنامہ مجلہ رحیمیہ، لاہور۔ اکتوبر نومبر 2012ء

ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن
ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن

پروفیسرڈاکٹر مفتی سعیدالرحمن  ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ (ٹرسٹ) لاہور کے سرپرست اور حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کے مجازین میں سے ہیں۔ 1978 میں حضرت اقدس شاہ عبد العزیز رائے پوریؒ مسند نشین ثالث خانقاہ عالیہ رحیمیہ رائے پور سے شرف بیعت حاصل ہوا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے درسِ نظامی و تخصص فی الفقہ اسلامی کی تکمیل کی، جہاں اپنے والد محترم حضرت مولانا محمد بدیع الزمانؒ کے علاوہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ  اور حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ  جیسے نامور اساتذہ کرام سے شرف تلمذ حاصل ہوا، اس کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل ایم شریعہ میں ڈگری حاصل کی۔ 33 سال تک بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں تدریس کے فرائض سر انجام دئیے۔ اسی یونیورسٹی سے اصول فقہ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ اور سات سال سے زیادہ عرصہ چئیرمین شعبہ علوم اسلامیہ بہاءالدین یونیورسٹی ملتان کے فرائض سر انجام دئیے، آج کل انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب ملتان میں شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مجلہ شعور و آگہی اور ماہنامہ رحیمیہ کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔ گزشتہ تقریباً 40 سال سے ولی اللّٰہی فکر سے وابستہ نوجوانوں، بالخصوص خانقاہِ رائے پور سے وابستہ متوسلین کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہیں۔

متعلقہ مضامین

حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں

حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ؛ فکر و عمل کے تناظر میں ڈاکٹر محمد ناصر عبدالعزیز ( ادارہ رحیمیہ علوم قرآنیہ لاہور کے السعید بلاک کی افتتاحی نشست میں کئے گئے ایک بیا…

مولانا ڈاکٹر محمد ناصرعبدالعزیز ستمبر 28, 2021

ہمارے مربی ومحسن (حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ )

ہمارے مربی ومحسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ از: مولانا مفتی عبدالقدیر، چشتیاں حضرتِ اقدس ؒ سے ابتدائی تعارف: …

مولانا مفتی عبدالقدیر ستمبر 22, 2021

حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے)

حضرت رائے پوری رابعؒ (یادوں کے دریچے) ڈاکٹر عبدالرحمن رائو (مضمون نگار حضرتِ اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ کے چھوٹے بھائی راؤ رشیداحمد مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جنھ…

ڈاکٹر عبدالرحمن راؤ ستمبر 27, 2021

امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد  رائے پوری ؒ

امام حکمت وعزیمت حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ از: مولانا محمد مختار حسن حضرت اقدس مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے اپنی پوری زندگی نوجوانوں میں اپنے بزرگ…

مولانا مفتی محمد مختار حسن ستمبر 27, 2021