از حضرت میاں جی محمدفاروق خان میواتی مجاز حضرت مولانا سید اسعد مدنی (میوات)
ہم اہلِ میوات نسل درنسل اپنے ہادی و مربی، مخدوم و محسن حضرت جی مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ (بانی تبلیغی جماعت) پردل و جان سے فدا تھے، ہیں اور ہمیشہ فدارہیں گے۔ میوات کے ہر ہر فرد کی زبان پر اُن کاچرچا رہتا تھا اور آج بھی ہے۔ ہمارے حضرت جیؒ اپنے معاصراکابر میں دو بزرگوں کو بہت چاہتے تھے۔ ان کابہت اکرام و احترام کرتے اور ان کا بے حد محبت سے ذکرِ خیرکرتے تھے۔ انھوں نے ان بزرگوں کی یہ محبت اہلِ میوات کے دلوں میں بھی جاگزیں کردی تھی۔ یہ دوبزرگ:
1۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدمدنیؒ
2۔ اور قطب الارشاد حضرت مولاناشاہ عبدالقاد ر رائے پوریؒ تھے۔
اس لیے اہلِ میوات حضرت جیؒ کی طرح ان دونوں اہل اللہ کو دل وجان سے چاہتے تھے۔ دونوں بزرگوں نے بارہا میوات کے دورے کیے۔ کئی کئی روز میوات میں قیام فرمایا۔ ان بزرگوں کے آستانوں پر میواتیوں کاانفرادی اور قافلوں کی صورت میں بہت کثرت سے آناجانا تھا۔ دونوں بزرگوں نے میوات کے پانچ سالکینِ تصوف کو خلافتوں سے بھی مشرف فرمایا تھا، جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: (1) حضرت مولانا عبدالمنان دہلوی(دہلی)، (2) حضرت مولانا فتح محمد خان میواتی (دہلی)، (3) حضرت مولانا رحیم شاہ میواتی (دہلی)، (4) حضرت مولانا محمد عبد الرشید نعمانی (کراچی) اور (5) حضرت مولانا پیرجمیل احمد میواتی دہلوی(رائیونڈ) ۔
جیساکہ اوپرعرض کیا کہ ہمارے میوات میں حضرت جیؒ، حضرت مدنیؒ اورحضرت رائے پوریؒ کا بہت چرچا تھا، مجھے مجاہدِمیوات مولانامحمد ابراہیم خان الوری (سابق ایم ایل اے و بانی صدر جمعیت علمائے ہند، میوات) کے آخری ایامِ حیات میں ان کے ساتھ وقت گزارنے اوران کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا۔ وہ ان تینوں بزرگوں کا بہت والہانہ انداز سے بہ کثرت تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے جیسے حضرت جی مولانا محمد الیاسؒ اورحضرت مدنیؒ سے محبت تھی، ایسے ہی حضرت رائے پوریؒ سے بھی بہت اُنس ہوگیا تھا۔ یہی اُنس و محبت حضرتؒ سے بیعت کی خواہش میں بدل گیا۔ چناں چہ میں حضرت رائے پوریؒ سے ان کے میوات کے ایک سفر میں بیعت ہوگیاتھا۔
میں نے بعد میں فروری 1962ء میں حضرتؒ کی زیارت اور روحانی استفادے کے لیے رائے پور کا سفر کیاتھا۔ وہاں بارہ دن گزارے۔ خانقاہِ رائے پور کا ماحول بہت الگ تھا کہ وہاں شب و روز سالکین و ذاکرین‘ ذِکْرُ اللّٰہ میں مصروف ہوتے تھے، لیکن قدرے آہستہ آوازمیں۔ نمازوں کے اوقات کے سوا ہروقت ذاکرین‘ اللہ کی یادمیں محو، مست و سرشار نظرآتے تھے۔ ماحول اور فضا پر اَنوارات کی بارش برستی محسوس ہوتی تھی۔ حضرتؒ کی مجلس میں شریعت و طریقت کے ساتھ سیاسیات کی گتھیاں بھی سلجھائی جاتی تھیں۔ جب خانقاہ میں حضرت رائے پوریؒ قیام فرماہوتے تو سالکینِ تصوف کا بہت ہجوم ہوتا تھا۔ حضرتؒ کاچوں کہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان بھی جانا ہوتا اور کئی کئی ماہ وہاں قیام فرماتے تھے، اس لیے جب خانقاہ میں ہوتے توسالکین کے علاوہ ملک کی بڑی شخصیات بھی حضرتؒ کی زیارت و ملاقات کے لیے کثرت سے آ تی جاتی تھیں۔ جب ہم وہاں پر مقیم تھے تو خانقاہ میں حضرت رائے پوریؒ سے ملنے کے لیے شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت جی ثانی مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اورمیواتی حضرات: مولانا عبدالمنان دہلویؒ، مولانا عبداللہ مالپوریؒ اورتبلیغی بزرگ میاں جی رحیم بخش خاںؒ بھی وہاں قیام فرما تھے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ خانقاہ کے کنوئیں میں چمڑے کا بڑا ساڈول گِر گیا۔ کنوواں بہت زیادہ گہراتھا۔ بڑی کوشش کے بعد بھی اسے نکالا نہ جاسکا، میں نے کہا کے میں اس ڈول کو نکال کر باہر لاسکتا ہوں۔ کیوں کہ میں تیراکی اورغوطہ خوری میں ماہرتھا۔ مجھے بتایاگیا کہ اس کنوئیں کی مُنڈیر پر جنات کاڈیرا ہے۔ کبھی کبھی کنوئیں سے ذکر کرنے کی اور کبھی عجیب و غریب خوف زدہ کردینے والی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ میں نے کہا: مجھے اللہ کے سوا کسی جن بھوت سے کوئی خوف و ہراس نہیں۔ میں کنوئیں میں اُترنے کے لیے تیارہوں۔ کسی نے حضرت رائے پوریؒ سے اوپر مذکور مہمانوں کی موجودگی میں میری طرف اشارہ کرکے کہا کہ: یہ میواتی نوجوان ڈول کے لیے کنوئیں میں اُترنے کے لیے تیار ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میں ڈول کونکال لاؤں گا۔ حضرت نے فرمایا کہ: ’’نہیں! ہرگز نہیں! رہنے دو۔ کنواں بہت قدیم ہے اور گہرا بھی ہے‘‘۔ پھرشیخ الحدیثؒ اورحضرت جی ثانیؒ کی طرف مسکراکر فرمایا کہ: ’’اس میواتی کوکچھ ہوگیا تواہلِ میوات اِدہر دھاوا بھی بول سکتے ہیں۔ پھر بھلا کون ان کے مقابل آئے گا؟ کون ان سے بچائے گا؟‘‘ اس پرحضرت شیخ الحدیثؒ نے فرمایا کہ: ’’حضرت! یہ توایک میواتی ہے، مولانا الیاسؒ نے ان میواتیوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ ان کے دلوں میں حضرت مدنیؒ اورآپؒ کی محبت وعقیدت اس قدر راسخ کردی ہے کہ یہ توسبھی ہروقت آپ حضرات پر دل جان سے فداہونے کے لیے تیار رہتے ہیں‘‘۔
جس روز میں نے وہاں سے اپنے ایام پورے کر کے گھر لوٹنا تھا، میں حضرتؒ کو ایک کھڑکی سے بار بار دیکھتا اور دل میں آتاکہ اب آج کے بعد آپ کی زیارت شاید نصیب نہ ہو۔ میں بارباراس خیال کو جھٹکتا، لیکن اس خیال سے دل بھر بھرآتا اور آنکھیں باربارنم ہو جاتی تھیں۔ بعد میں ایسا ہی ہوا۔ حضرت رائے پوریؒ پاکستان کے سفر پر گئے۔ وہاں لاہور میں 16؍ اگست 1962ء کو آپؒ کا انتقال ہوا۔ ان کی رائے پور میں اپنے مرشد و مربی حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کے قدموں میں دفن ہونے کی خواہش کے برخلاف ان کے عزیزوں نے آبائی قصبہ ڈھڈیاں (ضلع سرگودھا) میں تدفین کی تھی۔ حضرت رائے پوریؒ کے انتقالِ پُرملال کو میوات میں بہت محسوس کیاگیا۔ پورے میوات میں تعزیتی جلسے ہوئے اور سبھی مساجد و مدارس میں قرآن خوانی اورایصالِ ثواب کا اہتمام کیا گیا۔
اہلِ میوات کابزرگانِ رائے پورسے محبت کایہ عالم ہے کہ چندسال پہلے اَلور میں جمعیت کا ایک اجلاس تھا، جس میں میوات کے علما اور چودہریان اوردینی مزاج کے لوگ موجودتھے۔ کسی نے اطلاع دی کہ پاکستان سے سلسلۂ رحیمیہ رائے پور کے سجادہ نشین مولانا شاہ سعید احمدرائے پوری بھارت آئے ہوئے ہیں۔ اس اطلاع کا شرکائے اجلاس پر اس قدر اثر ہوا کہ سبھی فرطِ عقیدت و محبت و جذبات میں آبدیدہ ہوگئے تھے۔ اہلِ میوات کے دلوں میں نسل در نسل جن چار بزرگوں کی فدویانہ عقیدت و محبت ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:(1) حضرت میاں راج شاہ میواتی، (2) حضرت جی مولانا محمدالیاس کاندھلویؒ، (3) حضرت مولانا سیّدحسین احمد مدنی، (4)حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بزرگوں کی بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، ان کی قبروں کوجنت کاباغ بنائے اوران کے فیوضاتِ علمیہ و رُوحانیہ سے اہلِ میوات کوہمیشہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
ٹیگز
محمد فاروق خان میواتی
محمد فاروق خان میواتی
مجاز حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ