حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو والدین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے بالکل بچپن میں رسول اللہؐ کی زیارت اوردیدار سے قبل ہی ایمان کی انمول دولت نصیب ہوگئی تھی۔ آپؓ قدیم الاسلام ہیں، مگر بدر میں ابوجہل کے لشکرنے زبردستی کا وعدہ لکھوا لیا، جس وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ رسول اللہؐ کی زیارت اور دیدار کاشوق حضرت حذیفہؓ کے رگ وپے میں سمایا ہوا تھا۔ جب سے وہ مسلمان ہوئے تھے، رسول اللہؐ کے حالات جاننے کے لیے، نیز آپؐ کے اوصافِ حمیدہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مسلسل کوشش اور جستجو میں لگے رہتے تھے۔ چناںچہ حضرت حذیفہؓ جب کچھ بڑے اور سمجھ دار ہوگئے تو ایک بار بہ طورِخاص رسول اللہؐ سے ملاقات کی غرض سے مدینہ سے سفرکرتے ہوئے مکہ پہنچے، جہاں انھیں زندگی میں پہلی بار آپؐ کا دیدار نصیب ہوا۔ اس کے بعدجب رسول اللہؐ ہجرت فرما کر مکہ سے مدینہ تشریف لائے توایک روز حضرت حذیفہؓ نے آپؐ سے دریافت کیا کہ: ’’اے اللہ کے رسول! کیا میں مہاجرین میں سے ہوں یا اَنصار میں سے؟‘‘ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر تم چاہو توخود کو مہاجرین میں شمار کرلو اور اگر چاہو تو اَنصارمیں سے‘‘۔ اس پر حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! میں اَنصاری ہوں‘‘۔
رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد حضرت حذیفہؓ اوران کے والد یمان ؓ دونوں کی یہی کیفیت رہی کہ ہمہ وقت زیادہ سے زیادہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضری اور علمی استفادے میں مشغول ومنہمک رہا کرتے تھے۔ ہجرتِ مدینہ کے فوری بعد محض اگلے ہی سال جب مشرکین و مخالفین کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جنگوں کا دور شروع ہوا تو آپؓ بدر کے سوا سب معرکوں میں شریک رہے۔ حضوؐر نے حضرت عمار بن یاسرؓ اور آپؓ کے درمیان عقد ِمواخات (بھائی چارے کا معاہدہ) کرایا۔
حضرت حذیفہؓ سو سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں۔ 12 صحیح بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہیں اور آٹھ احادیث صحیح بخاری میں ہیں۔ 17 صرف مسلم شریف میں ہیں۔ عہد ِرسالت میں ریاستی سطح کے اہم امور میں بھی شریک رہے۔ مدینہ میں مسلمانوں کی پہلی مردم شماری کی ڈیوٹی آپؐ نے حضرت حذیفہؓ ہی کی لگائی۔ اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد پندرہ سو تھی۔ ایک شخص نے آپؓ سے پوچھا کہ فتنوں میں سے بڑا فتنہ کون سا ہوگا ؟ تو آپؓ نے فرمایا : ’’اچھائی اور برائی دونوں تمھارے سامنے ہوں، لیکن تمھیں یہ پتہ نہ ہو کہ ہم کس کو اختیار کریں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے حضرت حذیفہؓ کو مدائن کا گورنر بناکر بھیجا تو آپؓ نہایت سادگی سے اپنے گدھے پر سوار ہوکر گئے۔ ایک بار حضرت عمرؓ نے آپؓ کو مدینہ بلایا اور جنگل میں چھپ کر دیکھا کہ کتنا مال واپس ساتھ لاتے ہیں؟ دیکھا کہ تن تنہا سواری پر خالی ہاتھ آرہے ہیں۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھے اور فرمایا: ’’تُو میرا بھائی اور میں تمھارا بھائی‘‘۔ آپؓ کا انتقال ۳۶ھ / 656ء میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے 40 روز بعد ہوا۔ اس وقت آپؓ مدائن دبا کے علاقے میں گورنر تھے۔ (طبقات ابن سعد)
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔