حضرت حکیم بن حِزام قرشی اسدی رضی اللہ عنہٗ کی کنیت ’’ابو خالد مکی‘‘ ہے۔ فاختہ بنت زہیر آپؓ کی والدہ اور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپؓ کی پھوپھی ہیں۔ آپؓ حضرت زبیر بن عوامؓ کے چچا زاد بھائی تھے۔ آپؓ مکہ کے مشہور ’’واقعہ فیل‘‘ سے تیرہ سال پہلے کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
حضرت حکیم بن حزامؓ رسول اللہﷺ سے شدید محبت رکھتے تھے۔ آپؓ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور غزوۂ حُنَین میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ شرکت کی اور آپؐ نے اس موقع پر حضرت حکیمؓ کو 100 اونٹ دیے۔ انھوں نے مزید مطالبہ کیا تو آپؐ نے مزید عطا فرمائے، انھوں نے پھر مطالبہ کیا تو پھر آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ مال بہ ظاہر شیریں ہے، جس نے اسے سخاوتِ نفس (دل کی سخاوت) سے لیا، اس میں برکت ہوگی اور جس نے اسے اِشرافِ نفس (نفس کے لالچ) سے لیا تو اس میں برکت نہ ہوگی، اور وہ شخص اس طرح ہوگا کہ کھائے گا، لیکن سیر نہیں ہوگا‘‘۔
اس پر حضرت حکیمؓ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی، جس نے آپؐ کو نبیٔ برحق مبعوث فرمایا، میں آپؐ کے بعد کسی کے احسان کو قبول نہیں کروں گا‘‘۔ پھر انھوں نے آپؐ کے بعد کسی کے احسان کو قبول نہ کیا اور نہ ہی دورِ صدیقی و فاروقی میں کوئی وظیفہ قبول کیا۔ اس کے باوجود آپؓ صاحبِ ثروت لوگوں میں شامل رہے۔
حضرت حکیم بن حزامؓ بڑے سخی اور عقل مند تھے۔ آپؓ کے حق میں نبی کریمؐ نے دعا کی تھی کہ: ’’اے اللہ! تُو اس کے ساز و سامان میں برکت ڈال‘‘۔ جب بنو ہاشم اور بنوعبدالمطلب پر شعب ابی طالب میں خرید و فروخت اور باہمی نکاح کرنے پر پابندی تھی‘ آپؓ شام سے آنے والے تجارتی قافلے سے ملتے اور ان سے پورے کا پورا مال خرید لیتے، پھر اسے اونٹوں کی پُشت پر لاد کر کھانا و کپڑا آپ ﷺ کے اعزاز میں پہنچاتے تھے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ یہ کام حضور ﷺ اور اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کی تکریم کی خاطر کرتے۔ آپؓ نے ہی حضرت زید بن حارثہؓ کو خریدا تھا اورآپؓ سے حضرت خدیجہؓ نے خرید کر آپ ﷺ کو ہدیہ کیا اور آپؐ نے ان کو آزاد کر دیا۔
آپؓ انسانی و قومی زندگی کے معاملات کے ماہرترین صاحب الرائے (درست رائے رکھنے والے) لوگوں میں سے تھے۔ آپؓ زمانۂ جاہلیت اور پھر زمانۂ اسلام دونوں میں قریش کے اَشراف اور ذی وجاہت لوگوں میں سے رہے ہیں۔ آپؓ نے جس قدر زمانۂ جاہلیت میں نیک کام کیے، اسی قدر اسلام میں بھی کیے۔ ایک دفعہ آپؓ نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ: کیا اسلام لانے سے قبل کیے جانے والے نیک کام‘ اسلام لانے کے بعد بھی نفع بخش ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: ’’ان کا ہی فائدہ ہوا کہ تم مسلمان ہو گئے ہو‘‘۔ آپؓ نے۵۴ہجری میں 120 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ( تاریخ ابن کثیر ج 4 ص 406 ، اسدالغابہ، طبری، الخصائص الکبریٰ)
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔
متعلقہ مضامین
حضرت فاطمۃ الزہرا
خاتونِ جنت حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ آپؓ اعلانِ نبوت سے پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ نے آغوشِ نبوت می…
غلبۂ دین کی نبوی حکمت عملی اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں
خطاب حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ (کہروڑ پکا میں بخاری چوک میں واقع جامع مسجد تالاب والی میں 14فروری 2009ء بروز ہفتہ کو عشاء کی نماز کے بعد سیرت النبی ﷺ…
حضرت ثابت بن قیس بن شماس اَنصاریؓ ’خطیبُ النبیؐ‘
حضرت ثابت بن قیس بن شماس خزرجیؓ اَنصار کے اور رسول اللہ ﷺ کے ’’خطیب‘‘ کے لقب سے ملقب تھے۔ فصاحت و بلاغت اور خطابت میں آپؓ کو بڑی مہارت حاصل تھی، اس …
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
اُمُّ المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد قریش کے چند مشہورِ زمانہ سخی افراد میں سے تھے۔ آپ کی والدہ عاتکہ بنت عامر کنانیہ تھیں، جن کا تعلق معزز قبیلہ بنوفراس …