حضرت حباب بن منذر خزرجی انصاری ؓ حضور اکرم ﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل ہی حلقہ بہ گوشِ اسلام ہوگئے تھے۔ آپؓ نے تمام غزوات اور معرکوں میں رسول اللہؐ کے ساتھ شرکت کی۔ جنگِ بدر میں قبیلہ خزرج کا عَلم (جھنڈا) آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ رسول اللہؐ جب بدر کے مقام پر اُترے تو حضرت حبابؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا یہ حکمِ الٰہی ہے یا آپؐ کی ذاتی رائے ہے؟ تو آپؐ نے فرمایاکہ ’’ذاتی رائے ہے‘‘ تو حضرت حبابؓ نے عرض کی کہ یہ جگہ درست نہیں ہے، ہمیں پانی کے پاس اُترنا چاہیے اور تمام کنوؤں پر قبضہ کرکے ایک حوض بنالینا چاہیے، تاکہ ہمارے لشکر میں پانی کی قلت نہ ہو اور دشمن تنگی سے پریشان ہوجائے۔ حضوؐر نے فرمایا: ’’حباب صحیح کہتے ہیں‘‘ اور تمام لشکر کو لے کر بدر کے کنوئیں پر ڈیرہ ڈال دیا۔ اس سے پتہ چلا کہ حضرت حبابؓ اپنے علاقے کے زمینی وسائل، پانی اور دیگر اشیا کو سیاسی، معاشی، معاشرتی اور فوجی نقطہ نظرسے استعمال کا بھرپور شعور رکھتے تھے۔ نیز حضرت حبابؓ عرب کے جغرافیے اور اپنے علاقے و دھرتی کے استعمال کی پوری اہلیت رکھتے تھے۔ ہر دور میں جیو پولیٹکل نوعیتوں پر عبور اور دسترس رکھنے والے لوگ ہی اپنی توانائیوں کا درست استعمال کرکے ترقیات کی منازل طے کرسکتے ہیں۔
جنگ میں دشمن کی طاقت کو بغیر ہتھیار کمزور کرنے کی حضرت حبابؓ کی تدابیر اور تجاویز اُن کی بیدار مغزی کی علامات ہیں۔ آپؓ کی اس اجتہادی رائے میں وزن تھا۔ اس کی اہمیت کی خاطر ہی حضوؐر نے اپنی رائے کے بجائے اسے قبول کیا اور اسی پر فیصلہ فرمایا۔ علامہ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حبابؓ کی رائے کی تائید کی کہ ان کی رائے بڑی اچھی رائے ہے۔
اُحد کی جنگ میں قریش کا لشکر جب ذوالحلیفہ پہنچا تو آپؐ نے دو جاسوس بھیجے اور ان کے بعد حضرت حبابؓ کو روانہ کیا تو انھوں نے تمام لشکر میں گھوم کر درست معلومات اور مختلف خبریں بہم پہنچائیں اور دشمن کی تعداد اور قوت کا صحیح اندازہ کرکے آپؐ کو آگاہ کیا۔ اس جنگ میں بھی قبیلہ خزرج کا عَلم آپؓ کے پاس تھا۔ اس غزوہ میں جب مسلمان مشکلات سے دوچار ہوئے تو حضوؐر کے ساتھ پندرہ صحابہ کرام، 8 مہاجر اور 7 انصار ڈٹے رہے۔ ان میں سے ایک حضرت حباب بن منذؓر بھی تھے۔
آپؓ ایک بلند پایہ شاعر اور اچھے خطیب تھے۔ آپؓ کے خطبے میں فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان کے پورے جوہر پائے جاتے تھے۔ حضرت حبابؓ اپنی جماعت میں قومی اور اجتماعی زندگی کے معاملات، دین حق کے شعور اور عقلی و فطری صلاحیتوں کے استعمال کے حوالے سے ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ حضرت حبابؓ نے حضرت عمرفاروقؓ کے دورِ خلافت میں پچاس سال سے اوپر کی عمر میں وفات پائی۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔