حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ

مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف
اگست 01, 2020 - ایمان افروز واقعات
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ

ترجمان القرآن، حِبرُ الاُمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ شعبِ ابی طالب کے زمانۂ قید میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ فتح مکہ پر ہجرت کرکے مدینہ آئے تو گیارہ سال عمر تھی۔ اکثر اوقات خدمتِ نبویؐ میں حاضر رہتے۔ آپؓ اپنی خالہ اُم المؤمنین حضرت میمونہؓ کے ہاں اکثر رہتے۔ وہاں آپؓ کو حضوؐر کی خدمت کا موقع ملتا اورمعمولاتِ نبوت سے آگہی نصیب ہوتی۔ علومِ نبویؐ کی تلاش و جستجو کی محنت و مشقت نے آپؓ کو اقوال و اعمالِ نبویؐ کا سب سے بڑا حافظ بنادیا۔ آپؓ کی مرویات کی مجموعی تعداد 2660 ہے۔ ان میں 75 احادیث بخاری و مسلم دونوں میں متفق علیہ ہیں۔ ان کے علاوہ 18 روایات میں امام بخاریؒ منفرد ہیں اور 49 روایات میں امام مسلمؒ منفرد ہیں۔ 
آپؓ علومِ قرآنیہ کے ماہر تھے اور تعلیمِ قرآن دینے میں بخل نہ کرتے تھے۔ تفسیرِ قرآن اور فہمِ قرآن حکیم کے فطری مَلکہ کے ساتھ ساتھ شانِ نزول اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں اس قدر وافر معلومات رکھتے تھے کہ کوئی آیت ایسی نہیں کہ جس کی تمام جزئیات سے پوری واقفیت نہ رکھتے ہوں۔ آپؓ تفسیرِ قرآن میں ہمیشہ عام، جامع اور قرینِ عقل پہلو کو اختیار کرتے تھے۔ آپؓ ’’کوثر‘‘ کا معنی ’’خیرِ کثیر‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس تفسیر سے قرآن حکیم کی وسعت اور عظمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ 
آپؓ کا حلقۂ درس بہت وسیع تھا۔ آپؓ نے خلافتِ راشدہ کے دور میں ہر قسم کی قومی، ملّی اور دینی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا۔ آپؓ حضرت عثمانؓ کے آخری سال ان کے نائب کی حیثیت سے امیرِ حج بن کر مکہ مکرمہ گئے۔ اس کے علاوہ بھی کئی بار امیرِ حج مقرر ہوئے۔ حضرت شقیق تابعیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ حج کے موسم میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے خطبہ دیا اور سورت نور کی تفسیر بیان کی۔ کیا خوب علومِ قرآنی کا بیان تھا کہ میں کیا بتاؤں! اس سے پہلے نہ میرے کانوں نے سنا اور نہ آنکھوں نے دیکھا۔ اگر اس تفسیر کو فارس وروم والے سن لیتے تو پھر اسلام قبول کرنے سے کوئی چیز ان کو نہ روک سکتی تھی۔‘‘ 
ایک مرتبہ ایک شخص نے تنگ کرنے کے لیے قبیلہ قریش کے تمام سرداروں کو کہا کہ کل صبح ابن عباسؓ کے گھر آپ سب کی دعوت ہے ۔ اگلے روز صبح کھانے کے وقت سب لوگ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے گھر پہنچ گئے۔ مجمع اتنا زیادہ تھا کہ سارا گھر بھر گیا۔ تحقیق کرنے پر جب معلوم ہوا تو آپؓ نے سب کو بٹھایا۔ بازار سے پھلوں کے ٹوکرے منگوائے۔ سب کے سامنے رکھ دیے اور مختلف امور پر بات چیت شروع کردی۔ اُدھر دوسری طرف بہت سے باورچیوں کو کھانا پکانے پر لگادیا۔ لوگ پھلوں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ کھانا تیار کرکے دسترخوان لگا دیا گیا۔ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر آپؓ نے اپنے خزانچیوں سے پوچھا کہ اتنی گنجائش ہے کہ اگر ہم روزانہ یہ دعوت جاری  رکھیں؟ مثبت جواب ملنے پر آپؓ نے یہ اعلان کردیا کہ: ’’اس مجمع کی روزانہ ہمارے ہاں دعوت ہے۔ روزانہ آجایا کریں۔‘‘ 

ٹیگز
کوئی ٹیگ نہیں
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف

مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے  بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔  ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ  کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔