حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: حضرت عمرؓ کے آخری حج کے موقع پر میں عبدالرحمن بن عوفؓ کے خیمے میں موجود تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک آدمی حضرت عمرؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ فلاں آدمی کہہ رہا تھا اگر عمرؓ فوت ہو گئے تو میں فلاں کی بیعت کروں گا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’میں کل رات عوام کو خطاب کروں گا اور سازشی عنصر جو عوام سے ان کی رائے چھیننا چاہتا ہے، اس کے بارے میں آگاہ کروں گا۔‘‘ حضرت عبدالرحمنؓ نے مشورہ دیا کہ امیرالمومنین! ایسا مت کریں۔ اس لیے کہ یہ موسمِ حج ہے۔ یہاں عام لوگ بھی جمع ہیں۔ عوام مزدور وغیرہ ہر قسم کی ذہنیت کے لوگ یہاں موجود ہیں۔ جو آپ کی مجلس میں غالب رہتے ہیں وہ بھی ہیں، یہ مخلوط اجتماع ہے۔ جب لوگوں میں آپ خطاب کریں گے تو مجھے ڈر ہے کہ عام لوگ آپ کی کوئی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائیں۔ وہ کچھ باتوں کو یاد رکھیں، کچھ باتوں کو بھول جائیں گے اور کچھ باتوں کی رہنمائی صحیح طریقے سے حاصل نہ کرسکیں۔ غلط اور صحیح میں فرق نہ کر سکیں اور کوئی اَور چیز ذہن نشین کر بیٹھیں۔ اس لیے اس واقعے پر آپ جلدی مت کریں۔ ہاں! آپ جب مدینہ طیبہ تشریف لے جائیں تو مدینہ دارُ الہِجرہ و السُّنّہ ہے اور وہاں خالص اہلِ علم، قوم کے بڑے سرداران، نظام کو چلانے والے اور اس کی نوعیت کو سمجھنے والے موجود ہوں گے۔ اس وقت آپ جو بات کہیں گے، وہ بات مضبوط ہوگی۔ پوری جماعت کو آپ کی بات سمجھ آئے گی۔ وہ اس کو صحیح محل پر رکھ کر غوروفکر کریں گے اور اس سے رہنمائی لیں گے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اس رائے کو قبول کرلیا اور فرمایا: ’’اگر میں مدینہ گیا اور ٹھیک ہوا تو میں یہ باتیں لوگوں سے ضرور کروں گا۔ سب سے پہلا خطاب یہی کروں گا۔‘‘ چناںچہ حضرت عمرؓ نے اپنا پالیسی ساز خطاب مدینہ پہنچنے کے بعد ارشاد فرمایا، جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ اس واقعے سے ہمیں فتنوں کے دور میں کام کرنے اور دین کے اصل معاملات کو سمجھنے کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اجتماعی اور سیاسی معاملات میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی مدبرانہ مہارت و صلاحیت ان کے حضرت عمرؓ کو دیے گئے اس مشورے میں جھلک رہی ہے۔ آپؓ نے اس بات کی بہ خوبی نشان دہی فرمائی کہ نظام کی تشکیل اور اس کے حوالے سے آرا بیان کرنے کا مقام مدینہ منورہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں عوام نظام اور اس کی پالیسی سازی کے حوالے سے شکوک و شبہات ذہنوں میں لے کر نہ جائیں، تاکہ ارضِ خلافت میں انتشار پیدا نہ ہو۔ یہ اصول ہمیں معلوم ہوگیا کہ ہر بات ہر جگہ نہیں کی جاسکتی، بلکہ مقام اور مخاطب کی ذہنی سطح کا تعین بھی ضروری چیز ہے۔ دوسری اہم بات جو معلوم ہوئی، وہ یہ کہ صحابہ کرامؓ انفرادی نیکی کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور سیاسی ذمہ داریوں کو ادا کرنا اور اس میں غوروفکر کرنا، سیاسی کاموں میں مصروف رہنا، شرکت کرنا، اپنی توانائیاں صرف کرنا بھی دین کا حصہ سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔