حضور اقدس ﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو ’’الصّادق البار‘‘(سچے اور نیک) کا لقب دیا اور ’’سیّد من سادات المسلمین‘‘ (مسلمان جماعت کے رہنماؤں میں سے ایک رہنما) فرمایا۔ آپؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت اسودبن عوفؓ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ آپؓ دارِ ارقم میں داخل ہونے سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ حضوؐر نے فرمایا: ’’عبدالرحمن زمین وآسمان دونوں میں امین ہے۔‘‘ آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام معرکوں میں حضوؐر کے ہمراہ شریک رہے۔ غزوۂ اُحد میں آپؓ کو ٹانگ پر گہرا زخم اور بیس سے زائد دیگر زخم آئے، آپؓ کے اگلے دو دانت ٹوٹے۔ آپؓ اہم ترین مواقع اور مشاورتی مجالس کے حاضر باش صائبِ رائے، غیرمرعوب لوگوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی، اجتماعی اور قانونی معاملات میں درست اور قابلِ قبول عقلی رائے پیش کرتے۔ جب حضرت عمرؓ نے شراب نوشی کی سزا کے تعین پر مشاورت کی تو آپؓ نے فرمایا: ’’سب سے ہلکی حد والی سزا مقرر کی جائے۔‘‘ اس طرح اسّی کوڑوں کی سزا کا تعین کیا گیا۔ حضرت سعید بن جبیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ میں تواضع اتنی تھی کہ آپؓ اپنے غلاموں کے درمیان میں بیٹھے ہوئے پہچانے نہیں جاتے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے آخری وقت میں فرمایا کہ: ’’عبدالرحمنؓ بہت سمجھ دار اور معاملہ فہم آدمی ہیں۔ اگر خلیفہ کے انتخاب میں اختلاف ہوجائے تو ان کی رائے کو غور سے سننا! جیسا کہیں، ویسا ہی کرنا۔‘‘ صحابہ کرامؓ آپؓ کی امانت اور دیانت پر اس قدر اعتماد رکھتے تھے کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں حیثیتوں میں اکیلے آپؓ کے بیان کو کافی سمجھتے اور آپؓ کی بات پر یقین کرتے تھے۔ حضرت عثمانؓ فرماتے تھے کہ: ’’عبدالرحمنؓ اپنے موافق اور مخالف دونوں کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ان کو کسی ثبوت کی ضرورت نہیں، ان کا بیان ہی ثبوت ہے۔‘‘ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی آمدنی کا ذریعہ تجارت تھا، لیکن ہجرت کے بعد کھیتی باڑی شروع کی۔ رسول اللہؐ نے آپؓ کو کچھ زمین دی تھی اور بہت سی خودبھی خریدی۔ کھیتی باڑی بھی آپؓ نے بہت بڑے پیمانے پر کی۔ اس کا کچھ اندازہ یوں ہے کہ آپؓ کے ایک زرعی فارم کو بیس بیس اونٹ پانی لگا یاکرتے تھے۔ آپؓ کے رزق میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکتیں عطا فرمائیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ازواجِ مطہراتؓ کی خدمت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ آپؓ نے ان کے لیے ایک جائیداد وقف کی، جس کی ساری آمدن ازواجِ مطہراتؓ پر خرچ ہوتی۔ آپؓ کو صدقہ و خیرات کرنے کی بہت عادت تھی، تاریخ میں اس حوالے سے آپؓ کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔
حضرت عبدالرحمنؓ نے ۳۲ھ / 652ء میں 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حضرت عثمان غنیؓ نے آپؓ کی نماز ِجنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعونؓ کے پہلو میں ان کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کے مطابق دفن کیے گئے۔ آپؓ کی اولاد میں 28 بیٹے اور 8 بیٹیاں تھیں، جن میں حضرت ابوسلمہؒ جلیل القدر فقہا میں شمار ہوتے ہیں۔
ٹیگز
مولانا قاضی محمد یوسف
مولانا قاضی محمد یوسف کا شمار حضرت اقدس شاہ سعید احمد رائے پوری ؒ کے خلفاء مجازین میں ہوتا ہے۔ مدرسہ اشرفیہ تعلیم القرآن (حسن ابدال) اور گوجرانوالا اور جامعہ مدنیہ لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ 1988ء میں فاضل عربی/ فاضل اردو کی سند حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔اے اسلامیات اور طبیہ کالج راولپنڈی و نیشنل طبّی کونسل پاکستان سے طب کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی۔ 1980 کی دہائی میں دوران تعلیم حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کی فکری جدوجہد سے منسلک ہوئے۔ 1991 میں جامعة الملك السعود الرياض سعودی عرب سے تدریب المعلمین کی سند حاصل کی. اس وقت آپ گورنمنٹ ڈگری کالج واہ کینٹ میں بطور استاد فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔’’جامعہ خادم علوم نبوۃ‘‘ حسن ابدال کے مہتمم اور جامعہ عائشہ صدیقہ حسن ابدال میں مدرس ہیں۔ مسجد خلفائے راشدین میں امامت و خطابت کے فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنا خاندانی مطب بھی چلا رہے ہیں۔ تعلیمی اور فلاحی ادارے "التقویٰ ٹرسٹ" کے سرپرست، کامیاب استاد و منتظم اور طبیب و خطیب ہیں۔ حضرت مولانا مفتی عبد الخالق آزاد رائے پوری مدظلہ کی سرپرستی میں خانقاہ رحیمیہ اور ادارہ رحیمیہ کے فکروعمل کی ترویج میں کوشاں ہیں۔ ماہنامہ مجلہ "رحیمیہ" میں "صحابہ کا ایمان افروز کردار" کے عنوان سے سلسلہ وار لکھ رہے ہیں۔